ایک حدیث پاک پر شہبات اور اس کے جوابات
ایک حدیث پاک پر اعتراضات اور ان کے جوابات :
✍️ محمد شہاب الدین علیمی ، گورکھپور
کلیہ اصول الدین ، جامعۃ الازہر ، مصر
تمہید :
اسلام امن و آشتی کا دین ہے ، رحمت و سلامتی کا دین ہے ، اپنے ابتدائی ایام سے آج تک اپنی حقانیت کی بنیاد پر پوری دنیا میں مسلسل پھیلتا جا رہا ہے ، اسلام کی اس روز افزوں رفعت و بلندی سے دشمنان اسلام دل ہی دل میں کڑھتے ہیں ، پھر اسلام اور اہل اسلام پر طعن و تشنیع شروع کرتے ہیں ، طرح طرح کے الزامات و اتہامات گڑھتے ہیں ، اسلام کی خوبصورت تصویر کو مسخ کرنے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں ، اس مبارک دین کا چہرہ بگاڑنے میں کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے ، کبھی اسلام کو دہشتگردی کی تعلیم دینے والا دین کہتے ہیں ، تو کبھی تلوار کے زور پر پھیلنے والا دین گردانتے ہیں ، کبھی یہ کہتے ہیں کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو صرف قتل و قتال اور تدمیر و ہلاک پر آمادہ کرتا ہے ، تو کبھی نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر یہ تہمت باندھتے ہیں کہ وہ تمام لوگوں کو قتل کرنے کے لیے جلوہ گر ہوئے ہیں ، اس کے علاوہ بہت سارے افتراءات و اتہامات ہیں ، اس مقصد خبیث کی تکمیل کے لیے اسلام کے مصدرین رئیسین قرآن اور حدیث کا سہارا لیتے ہیں اور آیات و احادیث کی فاسد تاویل کرتے ہیں ، یہ گندے افعال صرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ لوگ اسلام سے نفرت کرنے لگیں اور اس کو اپنا دین نہ بنا لیں ، اہلیان اسلام کے اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں ؛ لیکن ان تمام مساعی کے باوجود اسلام کی لو ہر روز تیز ہو رہی ہے ، اور اپنے نور سے سارے عالم کو منور کر رہی ہے ، یہ اعدائے دین اپنے مقاصد میں ناکام ہوتے چلے جا رہے ہیں ، اور ان کا پھینکا ہوا تیر خود ان کی ہی طرف آکر ان کے حلق کو ہی چیر رہا ہے۔
وہ احادیث کریمہ کہ جن پر یہ لوگ طعن و تشنیع کا تیر پھینکتے ہیں اور غلط تشریح کر کے بڑے شوق سے اس کی ترویج و اشاعت کرتے ہیں ، ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
﴿أُمِرْتُ أنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حتَّى يَشْهَدُوا أنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وأنَّ مُحَمَّدًا رَسولُ اللَّهِ، ويُقِيمُوا الصَّلَاةَ، ويُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذلكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وأَمْوَالَهُمْ إلَّا بحَقِّ الإسْلَامِ، وحِسَابُهُمْ علَى اللَّهِ﴾ [1] ترجمہ : "مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں ، جب تک وہ لوگ یہ گواہی نہ دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اور نماز قائم کریں ، زکوۃ ادا کریں ، جب وہ ایسا کر لیں گے تو وہ مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال کو محفوظ کر لیں گے ، سوائے حق اسلام کے ، اور ان کا حساب اللہ تعالی کے ذمے ہے ۔"
اس حدیث پاک سے مستشرقین و مغربی مفکرین استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی اور تشدد والا دین ہے اور اس کے رسول ﷺ تمام لوگوں کے قتل پر مامور ہیں ۔
اس مقالے میں میں اس حدیث پاک پر روشنی ڈالنے کی کوشش گا ، حدیث پاک کا صحیح محمل بیان کرنے کی سعی کروں گا ، ساتھ ہی ساتھ اس پر ہونے والے شبہات کا ازالہ بھی کروں گا ۔
والله هو الموفق وهو المستعان ، و عليه التكلان ، ولا حول ولا قوة إلا بالله.
حدیث پاک کا اجمالی معنی :
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ وہ ان لوگوں سے جنگ کریں جو دین اسلام کی اشاعت سے منع کرتے ہیں ، اور رسول ﷺ اور ان کے ماننے والوں سے جنگ کرتے ہیں ، مسلمانوں کے حقوق غصب کرتے ہیں اور ان کو ان کے ہی گھروں سے نکالتے ہیں ؛ یہ مراد نہیں ہے کہ بے قصور غیر مسلم سے بھی جنگ کیا جائے ۔ اور نبی پاک ﷺ کا فرمان ”حتی يشهدوا أن لا إله إلا الله“ اس بات کا بیان ہے کہ جب یہ دشمنان اسلام کلمہ پڑھ لیں تو ان سے جنگ نہ کیا جائے ۔
یہ معنی ہر اس شخص پر آفتاب نیم روز کے مانند عیاں اور ظاہر و باہر ہے ، جس نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا ہے ۔ مگر حیرت ہے کہ کچھ دعوئ علم کرنے والے یتیم العلم اور خود کو مسلمان کہنے والے ایسے بھی ہیں جو اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں ، بلکہ بعض تو موضوع تک قرار دے دیتے ہیں ۔ ان کی یہ بات حد درجہ غیر مقبول و نامعقول ہے ۔ یہ حدیث پاک صحیح ہے اور حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے[2] ، اور اس کو تقریبا 15 سے زائد صحابۂ کرام نے متعدد الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ، ان میں حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر بن خطاب ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت انس بن مالک ، حضرت جریر ، حضرت سہل بن سعد ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت ابوبکرہ ، حضرت نعمان بنبشیر ، حضرت جابر وغیرھم رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین شامل ہیں [3]
حدیث پاک پر وارد ہونے والے شبہات:
مستشرقین و دشمنان دین اس حدیث پاک پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ، اور اپنے ماننے والوں کو شدت و سختی پر آمادہ کرتا ہے ، دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے ، غیر مسلموں پر ظلم و عدوان کی دعوت دیتا ہے ، لوگوں کو زبردستی دین اسلام میں داخل ہونے کے لیے مجبور کرتا ہے ، مسلمانوں کے رسول ﷺ اللہ کی طرف سے مامور ہیں کہ تمام غیر مسلموں کو قتل کر دیں۔
یہ تمام شبہات و اعتراضات لفظ 'أقاتل' اور لفظ 'الناس' سے ناشی ہیں ، اور ان کے ذہن میں یہ شبہات و اشکالات یا تو حدیث پاک کی نا فہمی کی وجہ سے پیدا ہوئے یا تو عناد کی وجہ سے ۔ اس تحریر میں میں ان دونوں کے تعلق سے تفصیلی کلام کروں گا۔
لفظ أقاتل :
لفظ أقاتل کا مصدر قتال اور مقاتلہ ہے ، قتل اور مقاتلہ کے درمیان لغوی فرق ہے ، مقاتلہ باب مفاعلت کا مصدر ہے ، اور باب مفاعلت کی خاصیت مشارکت ہے جو طرفیں کا تقاضا کرتی ہے ، جن میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس فعل میں شریک ہوں ، جیسے 'سَابَقْتُهُ' یعنی میں نے اس سے اور اس نے مجھ سے مقابلہ کیا ، لیکن لفظ قتل یہ معنی ادا نہیں کرتا ہے ، اب أقاتل کا معنی یہ ہوگا کہ "مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے کہ اسلام کے خلاف جنگ کی ابتدا کرنے والوں سے قتال کروں" لہذا قتال کے مباح ہونے سے قتل کی اباحت لازم نہیں ، کیوں کہ قتل الگ چیز ہے اور مقاتلہ الگ چیز ہے ۔
قرآن پاک میں قتال کا معنی :
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{"وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ-فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ-فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ"}۔ [4] ترجمہ : اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو اُن میں صلح کراؤ پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کردو اور عدل کرو بیشک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں۔
اس آیۃ کریمہ میں اللہ تعالی نے زیادتی کرنے والے گروہ سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے لیکن ان کے قتل کا حکم نہیں دیا ، لہذا مقاتلہ الگ چیز ہے اور قتل شے دگر ، مقاتلہ کا مطلب ظلم کو دور کرنا ، اپنے نفس کی حفاظت کرنا ، جبکہ قتل کا مطلب 'ہلاک کرنا'۔
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا ارشاد ہے : {"وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ"} [5] ترجمہ : اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو۔
اس آیۃ کریمہ کا مطلب بیان کرتے ہوئے علامہ آلوسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور ان پر زیادتی نہ کرو یعنی "عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو ، جو صلح کا پیام ڈالے اور جنگ سے اپنا ہاتھ کھینچ لے اس کو بھی قتل نہ کرو ، یا یہ مطلب ہے کہ تم جنگ میں پہل نہ کرو" [6] یہاں سے قتل اور مقاتلہ کے درمیان فرق بالکل واضح ہے ، کہ قتال دفاع کے لیے ہوتا ہے جس میں قتل ضروری نہیں جب کہ قتل کسی کو ہلاک کر دینے کا نام ہے ، اس حدیث میں ظالمین سے قتال کا حکم دیا گیا ہے ، نہ کہ قتل کا۔
حدیث میں قتال کا معنی :
رسول رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ﴿"إذا كان أحدكم يصلى فلا يدع أحدا يمر بين يديه فإن أبى فليقاتله فإن معه القرين"﴾ [7] ترجمہ: جب کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے، اور اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے ، کیونکہ اس کے ساتھ اس کا ساتھی (شیطان) ہے ۔
حضرت قاضی عیاض مالکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا : "محدثین کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس حدیث میں مقاتلہ سے مراد ہتھیار یا ہلاک کر دینے والے اسلحے سے قتال مراد نہیں ہے ۔" [8]
امام بغوی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا : "مقاتلہ سے مراد سختی سے منع کرنا ہے ، نہ کہ قتل کرنا ۔" [9]
لفظ أقاتل کے تعلق سے شارحين حدیث کے اقوال :
حضرت علامہ بدر الدین عینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتال اور قتل کے درمیان لغوی فرق کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : مامور بہ قتال ہے ، اور قتال کے مباح ہونے سے قتل کی اباحت لازم نہیں آتی ، کیونکہ باب مفاعلت جانبین سے وقوع فعل کو مستلزم ہے ، جبکہ قتل میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔[10]
امام ابن حجر عسقلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح الباری میں نقل کیا ہے کہ امام بیہقی رضی اللہ عنہ نے امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ امام شافعی کہتے ہیں : "قتال کو قتل سے کوئی علاقہ نہیں ، کبھی کسی شخص سے قتال کرنا تو حلال ہوتا ہے ، لیکن اس کو قتل کرنا حلال نہیں ہوتا ۔ [11]
عربی لغات میں قتال کا معنی :
المعجم الوجیز میں ہے :
قاتله : مقاتلة و قتالا ، أی : حاربه [12]
المعجم الغنی میں ہے :
قاتل عدوہ ، أی : حاربه و عاداه [13]
قرآن کریم و احادیث طيبہ ، نیز شارحین حدیث کے اقوال اور لغت کے بیان سے اظہر من الشمس ہو گیا کہ قتال الگ چیز ہے اور قتل الگ چیز ہے ، قتال وجود طرفین کو مستلزم ہے ، کہ جن میں سے ہر ایک دوسرے سے جنگ کرے جبکہ قتل میں ایسا نہیں ہوتا۔
لفظ "الناس" :
مستشرقین و دشمنان دین کہتے ہیں کہ اس حدیث پاک میں 'الناس' کا جو لفظ ہے وہ عام ہے اور ہر انسان کو شامل ہے ، اور اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو قتل کریں۔
اقول : 'الناس' کا لفظ بول کر کبھی تمام لوگ مراد لیے جاتے ہیں جیسے "قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ" [14] ، اور کبھی 'الناس' کا لفظ بول کر بعض انسان مراد لیے جاتے ہیں ، چاہے ان کی تعداد کم ہو یا زیادہ ، اور کبھی کبھی 'الناس' کا لفظ بول کر کے صرف ایک ادمی مراد ہوتا ہے ، جیسے اللہ کا ارشاد پاک ہے "اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ" [15]
اس آیۃ کریمہ میں اول الذکر 'الناس' سے مراد نعیم بن مسعود الاشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ، مفسرین کرام کی ایک بڑی تعداد نے یہی فرمایا ہے ، اور ان پر الناس ( تمام انسان ) کا اطلاق اس لیے کیا گیا کہ وہ انہیں کی جنس سے ہیں ، جیسے کہا جاتا ہے 'فلان یرکب الخیل' جب کہ اس فلاں کے پاس صرف ایک ہی گھوڑا ہوتا ہے ، باوجود اس کے کہ خیل کا اطلاق کثیر گھوڑوں پر ہوتا ہے ، اور آخر الذکر 'الناس' سے مراد حضرت ابو سفیان اور ان کے ساتھی لوگ ہیں ۔ اس بیان سے عیاں ہے کہ 'الناس' کا اطلاق کبھی ایک شخص پر ہوتا ہے ، کبھی بعض انسانوں پر ہوتا ہے ، تو کبھی تمام انسانوں پر ہوتا ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے :
فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ۚۖ [16] ترجمہ : "اس آگ سے ڈرو جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں" ، بداہتاً ظاہر ہے کہ یہاں پر لفظ الناس سے مراد بعض لوگ ہیں ، کیوں کہ تمام لوگ جہنم میں ہرگز نہیں جائیں گے ۔
قرآن پاک میں اس اسلوب کی کثیر مثالیں موجود ہیں ۔
اسی اساس اور اسی نہج پر حدیث پاک میں وارد لفظ 'الناس' ہے ، جس سے تمام انسان مراد نہیں ہیں ، بلکہ یہ "عام مخصوص منہ البعض" کے قبیل سے ہے ، لفظ اگر چہ عام ہے ، لیکن کچھ خاص لوگ مراد ہیں۔
چنانچہ اس معنی کی دوسری حدیث پاک خود یہ بیان کر رہی ہے کہ 'الناس' سے مراد یہاں تمام لوگ نہیں ہیں بلکہ مشرکین ہیں ، امام نسائی نے روایت کیا "أمرت أن أقاتل المشرکین۔۔۔" [17] ، تو لفظ "المشرکین" اعتراض شدہ حدیث پاک میں وارد لفظ 'الناس' کی تفسیر ہے ، نیز امام ابو داؤد نے بھی 'أمرت أن أقاتل المشرکین۔۔۔" [18] ہی روایت کیا ہے ۔
لفظ 'الناس' کے متعلق محدثین کرام کے اقوال :
امام نووی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں : "امام خطابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : 'الناس' سے مراد بتوں کو پوجنے والے ہیں ، اہل کتاب مراد نہیں ہیں" [19]
امام ابن حجر عسقلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح الباری شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں : "لفظ الناس عام ہے ، لیکن اس سے خاص مراد لیا گیا ہے ، اس سے مراد مشرکین ہیں ، اور اس پر امام نسائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث دلالت کر رہی ہے ، جو "أمرت أن أقاتل المشرکین۔۔۔" کے الفاظ کے ساتھ مروی ہے ۔" [20]
حضرت علامہ ملا علی قاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشکات شریف کی شرح مرقات المفاتیح میں فرماتے ہیں : "اکثر شارحین حدیث کا یہی موقف ہے کہ الناس سے مراد بتوں کو پوجنے والے ہیں ، نہ کہ اہل کتاب ۔" [21]
لہذا 'الناس' میں جو الف لام ہے وہ عہد کے لیے ہے ، اس سے خاص لوگ مراد ہیں ، جنس کے لیے نہیں ہے ۔ اور وہ معہود و مخصوص لوگ مشرکین مکہ ہیں ، اور یہ بھی تمام مشرکین مراد نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں سے جہاد کیا ، ان پر تشدد کیا ، دین اسلام کو پھیلانے سے روکا ، معاہدے کی خلاف ورزی کی ، مسلسل ٩ سال مدینہ شریف میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب سے جنگ کیا۔
کیا اسلام جبرا لوگوں کو دین اسلام میں داخل کرنے کی تعلیم دیتا ہے ؟
مغربی مفکرین و متشدد مستشرقین اور اعداء دین کہتے ہیں کہ اسلام لوگوں کو دین میں داخل ہونے کے لیے مجبور کرتا ہے ، یہ محض افترا اور کذب ہے ، اس افترا و بہتان کے پس پردہ ان کے برے مقاصد اور خبیث نیتیں کارفرما ہیں ، اس بہتان و الزام کو رد کرنے کے لیے تاریخی حقیقت اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ ، نیز مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے امن و صلح کے معاملات بین دلیل ہیں۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ انہیں لوگوں کے ساتھ جنگ کرتے تھے جو پہلے جنگ کی ابتدا کرتے تھے ، اور یہ حضرات اپنے دین اور اپنے مال و جان کی حفاظت کے لیے جنگ کرتے تھے ، جو شخص امن چاہتا تھا ،اس سے جنگ نہیں کرتے تھے ، اور نہ ہی بے گناہوں کے ساتھ جنگ کرتے تھے ، اسلام کیسے غیر مسلموں کو دین میں داخل ہونے کے لیے مجبور کر سکتا ہے ؛ جبکہ اسلام نے تمام لوگوں کو حریت اعتقاد کا حق دیا ہے ، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : "لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ" [22] ترجمہ : دین میں کوئی زبردستی نہیں ۔ امام ابن کثیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : "یعنی کسی کو دین اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہ کرو ، اس لیے کہ اسلام کی حقانیت اس طرح واضح اور جلی ہے کہ کسی کو مجبور کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالی جس کو ہدایت دے گا وہ اسلام میں خود ہی داخل ہو جائے گا ، اور اللہ تعالی جس کے دل کو اندھا کر دے گا ، جس کے کان اور آنکھ پر پردہ ڈال دے گا تو جبرا اس کا اسلام میں داخل ہونا کوئی اس کو فائدہ نہ دے گا ، اور اس آیت کریمہ کا سبب نزول ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیۃ کریمہ قبیلہ بنی سالم بن عوف کے ایک انصاری صحابی کے سلسلے میں نازل ہوئی ، جن کو حصینی کہہ کو پکارا جاتا تھا ، ان کے دو بیٹے تھے ، دونوں نصرانی تھے ، تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ کیا میں ان دونوں کو مجبور نہ کر دوں کہ وہ دونوں اسلام میں داخل ہو جائیں ، تو اللہ تعالی نے ان کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔" [23]
نیز اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے : اِنْ عَلَیْكَ اِلَّا الْبَلٰغُؕ- [24] یعنی اے محبوب تم پر صرف دین اسلام کی تبلیغ لازم ہے ، تو اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اجبار و اکراہ کا حکم نہیں دیا ہے ، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم رحمت اللعالمین ہیں اور اللہ تعالی نے ان کو صرف تبلیغ اور اشاعت دین کا مکلف بنایا ہے ، شدت و سختی اور اکراہ و اجبار کا حکم نہیں دیا ہے۔
اس کے علاوہ متعدد آیات ہیں جن کا استیعاب و استقصا مفضی الی الطول ہے ۔
نیز نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اہل یمن کی جانب ایک خط لکھا ، جس کا مضمون یہ تھا : {"من كره الإسلام من يهودي أو نصراني فإنه لا يحول عن دينه"} [25] یعنی یہود و نصاری میں سے جو بھی اسلام کو ناپسند کرے تو اس کو اس کے دین سے نہ پھیرا جائے"
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا یہ فرمان آشکارا کر رہا ہے کہ تعلیمات اسلام یہی ہے کہ کسی غیر مسلم کو اجبار و اکراہ کے ذریعہ اسلام میں داخل نہیں کیا جائےگا۔
کیا اسلام تلوار سے پھیلا ؟
ذہنی مریض مغربی مفکرین و تعصب پرست مستشرقین کا کہنا ہے کہ اسلام تلوار اور جنگ و جدال سے پھیلا۔ یہ دعوی باطل محض اور خلاف واقع ہے ، قرآن و حدیث اور تاریخی حقیقت اس کی سخت تردید کرتی ہیں ۔
اسلام کیسے تلوار اور اسلحوں سے پھیل سکتا ہے! جب کہ قرآن پاک میں اللہ نے حکم دیا ہے "لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ" دین میں اکراہ و اجبار نہیں ، یعنی کسی کو مجبور کر کے دین اسلام میں داخل نہ کرو ۔
اور رسول رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا : {"يا أيُّها الناسُ، لا تتمَنَّوا لقاءَ العدُوِّ، واسألوا اللهَ العافيةَ، فإذا لَقيتُم العدُوَّ فاصبِروا"} [26]
"اے لوگو اپنے دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو ، اور ملاقات ہونے سے اللہ کی عافیت مانگو ، لیکن اگر کبھی ان سے ناگاہ ملاقات ہو جائے تو صبر کرو"
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں جنگ ناپسندیدہ ہے ، اضطراری حالت میں ، اپنی جان و مال اور ایمان و عقیدہ کے دفاع کے لیے مسلمان تلوار اٹھانے پر مجبور ہوتا ہے ، حتی کہ اسلام میں جتنی جنگیں ہوئی ہیں وہ سب مال و جان کی حفاظت یا غصب شدہ حق کو واپس دلانے کے لیے لڑی گئی ہیں ، سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والا اس بات کو اعتراف کرنے پر مجبور ہوگا کہ مسلمانوں نے ابتداءً کبھی کسی جنگ کی آگ نہ بھڑکائی ، تقریبا 27 غزوات میں نبی رحمت ﷺ نے شرکت کی لیکن کسی بھی غزوے میں آپ نے ابتدا نہیں کی ؛ بلکہ اپنے دین و متبعین کی حفاظت و صیانت کے لیے یہ ساری جنگیں لڑیں۔
مشروعیتِ قتال کے سلسلے میں نازل ہونے والی سب سے پہلی آیۃ کو دیکھیں ، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
﴿اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْر(39) الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُؕ-وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْكَرُ فِیْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِیْرًاؕ-وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ﴾(40)
اس آیۃ کا ابتدائی حصہ صراحتا اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ انہیں لوگوں سے جنگ کیا جائے گا جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی اور ان پر ظلم کیا ، تو جنگ کی اجازت جان و مال کے دفاع اور جور و جفا کو روکنے کے لیے ہی دی گئی۔
آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ جن پر ظلم کیا جا رہا ہے ، جن کو قتل کیا جا رہا ہے ، گھروں سے جن کو نکالا جا رہا ہے ، ان کو اجازت ہے کہ وہ اپنے جان و مال کی حفاظت کریں اور کافروں سے جنگ کریں ۔
اس آیۃ کریمہ نے واضح کر دیا کہ جنگ کی مشروعیت کے اسباب میں سب سے پہلا سبب مظلومین کی مدد کرنا ، ان سے ظلم کو دفع کرنا اور ان کا غصب شدہ حق واپس دلانا ہے ۔
واقع اور تاریخ بھی اس بات کی تائید کرتی ہیں ، جو مشرکین سے جنگ کے سلسلے میں سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت للعالمینی اور دشمنوں کے ساتھ عظیم اخلاق کو ملاحظہ کرے گا ، معترضین جب تاریخ میں فتح مکّہ کا باب کھولیں گے تو پائیں گے کہ اللہ تبارک و تعالی نے جب مشرکین مکہ پر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو فتح دی اور مسلمان غالب ہو گئے تو باوجود اس کے کہ ان مشرکین نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آل و اصحاب کو بےشمار اذیتیں ، طرح طرح کی مصیبتں پہنچائی تھیں ، لیکن نبی رحمت ﷺ نے سب کو معاف فرما دیا اور تاریخ نے آپ کا رحمت بھرا جملہ اپنے اوراق میں محفوظ کر لیا، آپ نے ارشاد فرمایا {"اذھبوا فأنتم الطلقاء"} [28] جاؤ تم سب آزاد ہو ۔
اگر اسلام قتل کا حکم دیتا یا زبردستی اسلام میں داخل کرنے کا حکم دیتا تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ضرور اس حکم کو نافذ کرتے ۔ لیکن آپ نے سمو اخلاق کا مظاہرہ فرمایا ، یہی وہ خلق عظیم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی محبت ان کے دلوں میں بس گئی ، ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ، اور جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ اس وقت اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنی انگلی کا اشارہ کر دیتے تو صحابہ کرام ان کفار و مشرکین کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظلم کے باوجود ان کو معاف کر دیا۔ اسی اخلاق حسنہ اور منہج سلیم پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ، خلفائے راشدین اور آپ کی امت آج تک چلی آ رہی ہے۔
غیروں سے جنگ کا سبب کفر ہے یا ظلم و عدوان ؟
شیخ الازہر شیخ احمد طیب صاحب نے اپنی کتاب 'مفہوم الجہاد فی الاسلام' [29] میں تفصیل کے ساتھ اس عنوان پر بحث کی ہے ، اختصارا ان کی عبارت کو میں نقل کرتا ہوں ۔
جمہور علماء مسلمین نے تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ امت مسلمہ پر کفار کا ظلم و عدوان مشروعیت جنگ کا سبب ہے ، محض کفار کا کفر جنگ کا سبب نہیں ، نیز قرآن پاک نے ایمان و کفر کے سلسلے میں لوگوں کو حریت و آزادی دی ہے ، تو یہ بات محال ہے کہ قرآن کریم جبرا کافروں کو اسلام میں داخل ہونے کے لیے جنگ کی اجازت دے ، وگرنہ قرآن کا بعض حصہ بعض حصے سے متناقض ہو جائےگا ، اور قرآن ایسے ہو جائے گا جیسے کوئی کسی قانون کو نافذ کرے جس میں حریت اعتقاد کا حق دے اور پھر اسی وقت وہ دوسرا قانون نافذ کرے اور اس آزادی سے منع کر دے ۔
لہذا کفار یا کسی بھی دین کو ماننے والے یا کسی دین کو نہ ماننے والے جب تک مسلمانوں کے ساتھ صلح و امن کے ساتھ رہیں گے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں کریں گے ، ان پر ظلم نہیں کریں گے ، جو معاہدہ ہوا اس کی خلاف ورزی نہیں کریں گے ، تو ان سے قتال جائز نہیں ہوگا اور مسلمان ان کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لیں گے ، اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿"لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ"﴾ [30] ترجمہ: اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں۔
جمہور علماء مسلمین اس بات پر متفق ہیں اور اپنی فقہی کتابوں میں اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ جنگ کی وجہ ظلم و زیادتی ہے نہ کہ کفر ، اور اس کے اثبات میں ان کے پاس عقلی ، تاریخی اور قرآن و سنت سے ماخوذ استدلالات ہیں ۔
دلیل عقلی تو یہ ہے کہ اسلام حکم دیتا ہے کہ شیخ فانی ، چھوٹے بچوں اور عورتوں کو میدان جنگ میں قتل نہ کیا جائے ، یہ تحریم حدیث پاک سے ثابت ہے ، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد پاک ہے :
{"لا تقتلوا شیخا فانیا ولا طفلا صغیرا ولا امرأۃ..."} [31] یعنی شیخ
تبصرے