سہل بن عبداللہ تستری علیہ الرحمہ
🌹 *١٢ محرم الحرام یومِ وصال سَہْل بن عبداللّٰہ تُسْتَرِی رحمۃُ اللّٰہ تعالی علیہ* 🌹
از۔ *افقر الوریٰ الی سید الوریٰ*
*محمد شہاب الدین علیمیؔ*
متعلم۔ *جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی*
تاریخ۔ *١٢ محرم الحرام ٢٤٤١ھ*
*01 ستمبر 2020؏*
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم•
حضرت سہل بن عبداللّٰه تُسْتَرِی کا شمار متقدمین صوفیاء میں ہوتا ہے۔ آپ کا مقام صوفیاں کرام میں بہت بلند ہے، بلکہ اگر آپ کو مقتدائے صوفیاء کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ آپ کثرت سے فاقہ کشی کیا کرتے تھے۔دن رات خوب عبادت کرتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب اللّٰہ تعالی نے روحوں کو مخاطب کرکے فرمایا *أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ* ( کیا میں تمہارا رب نہیں ) ؛ تو اس کے جواب میں میں نے کہا تھا: *بَلٰی* ( کیوں نہیں ) یہ سب مجھے اب بھی یاد ہے۔( اللّٰہ اکبر )۔ آپ نے سات سال کی عمر سے ہی روزہ رکھنے کی مداومت اختیار کر لی تھی۔ زہد و تقوی کے لئے جتنی چیزیں درکار ہے مثلاً اخلاص ، صبر ، توَکُّل ، خواہش نفسانی سے بچنا ، تواضع وغیرہ ساری چیزیں آپ کے اندر جمع تھیں۔ یہ ساری چیزیں آپ کو عہد طفولیت میں ہی حاصل ہو چکی تھیں۔
ایک مجوسی تھا جس کے بیت الخلاء میں سوراخ تھا۔ اس کی وجہ سے گندگی آپ کے گھر میں آتی تھی۔ آپ رات کو دن بھر کی ساری گندگی ایک کونے میں جمع کر دیتے تھے ، مگر مجوسی سے کبھی شکایت نہ کی۔ ایک بار جب آپ بیمار ہوگئے تو آپ نے مجوسی کو بلا کر یہ سارا واقعہ بیان کیا ، اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ میرے ورثاء اس بات کو برداشت نہ کرسکیں گے اور تم سے جھگڑیں گے ، لہذا میں تم سے معذرت کرتا ہوں۔ مجوسی یہ سن کر بڑا متعجب ہوا کہ اتنی بڑی ایذا رسانی پر اس درجے کا صبر!؟ اس نے کہا: اتنے دن سے میں آپ کو ایذا پہنچا رہا ہوں اور آپ اس قدر صبر کر رہے ہیں ، اور میں ابھی بھی اپنے کفر پر قائم ہوں! ہاتھ بڑھائے اور مجھے مسلمان کیجئے۔ چنانچہ آپ نے ہاتھ بڑھایا اور اسے مسلمان کیا۔ اس کے بعد آپ کا وصال ہوا۔
آپ اپنے نفس پر بہت سختی کرتے تھے۔ کثرت سے روزہ رکھتے اور افطار میں بہت کم کھاتے تھے۔ یہاں تک کہ کبھی بادام سے ہی افطار کر لیتے۔ ایک مرتبہ آپ حج کے ارادے سے گھر سے نکلے اور کوفہ پہنچے۔ نفس نے خواہش کی کہ مچھلی کھلادو تو کعبہ شریف آرام سے پہنچیں گے ، اس کے بعد میں خواہش نہیں کروں گا۔ چنانچہ آپ نے ایک جگہ دیکھا کہ ایک اونٹ رسی سے باندھا ہوا چکی چلا رہا ہے۔ آپ نے چکی والے سے پوچھا کہ تم اس اونٹ کے مالک کو کتنا دیتے ہو؟ اس نے کہا: دو دینار۔ آپ نے کہا: مجھے ایک دینار ہی دینا اور آج مجھے اس چکی سے باندھ دو۔دن بھر آپ نے محنت کیا اور اس ایک دینار کا مچھلی اور روٹی خریدکر تناول فرمایا۔ پھر نفس سے مخاطب ہو کر کہا: آئندہ ایسی خواہش کرو گے تو ایسے ہی سخت محنت کا کام کرنا پڑے گا۔ پھر مکہ معظمہ پہنچ کر حج کیا اور حضرت ذوالنون مصری رحمة اللّٰہ تعالیٰ علیہ سے بیعت ہو کر واپس تُسْتَر چلے آئے۔
نہ کبھی آپ دیوار سے ٹیک لگاتے ، نہ ہی آپ پاؤں پھیلا تے ، نہ ہی کسی کے سوال کا جواب دیتے۔ ایک دن اچانک دیوار سے پشت لگا کر پاؤں پھیلایا اور بولے کہ جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو؟ لوگ بہت حیران ہوئے تو آپ نے فرمایا: جب تک میرے استاد باحیات تھے تب تک مجھ پر ادب لازم تھا۔ میری ہمت نہ تھی کہ میں یہ سب کام کروں۔ ان کے ادب کی وجہ سے میں ایسا نہیں کرتا تھا۔ لوگوں نے تاریخ اور وقت نوٹ کرلیا اور معلومات کے بعد پتہ چلا کہ ٹھیک اسی وقت حضرت ذوالنون مصری رحمة اللّٰہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہوا۔
*ارشادات:*
1۔ پیٹ بھر کر کھانے سے خواہش نفسانی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے اور نفس اپنی مرادیں طلب کرنے لگتا ہے۔
2۔رزق حلال سے مکمل اعضاء رجوع عبادت رہتے ہیں۔
3۔اہل اخلاص کو مصائب کا شکار بنا کر اللہ تعالیٰ آزماتا ہے ، اگر وہ ثابت قدم رہتے ہیں تو اپنا قرب عطا کرتا ہے ، ورنہ آتش فراق میں ڈال دیتا ہے۔
4۔ توکل کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کے سامنے اس طرح رہے جیسے غَسّال کے سامنے میّت پڑی رہتی ہے۔
5۔ نفس کے لیے سب سے دشوار معاملہ اخلاص ہے۔
آپ ١٢ محرم الحرام ٣٨٢ھ کو اس دار فانی سے رحلت فرما گۓ۔
اللّٰہ پاک آپ کے مرقدِ عالی پر رحمت و نور کی بارش فرماۓ اور آپ کے درجات کو بلند فرماۓ۔ آپ کے صدقے ہمیں دنیا و آخرت میں سرخرو فرماۓ۔آمین
افادات از تذکرة الاولیاء و جہنم میں لے جانے والے اعمال۔
تبصرے