حضور خواجہ غریب نواز اور اعلی حضرت کی عقیدت

 حضور خواجہ غریب نواز اور اعلی حضرت کی عقیدت 


محمد شہاب الدین علیمی

٦ رجب المرجب ١٤٤٦ھ 



امام اہل سنن ، فخر زمین زمن ، مجدد دین و ملت سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ کے ولیوں سے بڑی عقیدت تھی ، اور ہو بھی نہ کیوں ، کہ وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں ، اور ان سے محبت کرنا اللہ تعالیٰ سے محبت کی دلیل ہے ، بالخصوص سرکار غریب نواز خواجہ معین الحق والدین چشتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات سے آپ کو گہری عقیدت تھی ، اسی در کی خاک سے آپ کی آنکھ کی تکلیف دور ہوئی ، کئی طبیبوں کو دکھایا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ، ایسی عقیدت کہ آپ نے صرف اجمیر کہنے سے منع فرمایا اور اجمیر شریف کہنے کا ذہن دیا ، مقام اجابت میں در خواجہ کا ذکر فرمایا ، تقریبا دو بار اس بارگاہ اقدس میں حاضری سے مشرف ہوئے ، ذیل میں کچھ عقیدت کی باتیں پیش ہیں ، باصرہ نواز فرمائیں۔


مسئلہ : حضرت خواجہ معین الدیں سجزی قدس سرہ کو غریب نواز کے لقب سے پکارنا جائز ہے یا نہیں ؟


جواب : حضرت سلطان الہند معین الحق والدین ضرور غریب نواز ہیں۔

( ملتقطا فتاوی رضویہ شریف ج ٢٩ ص ١٠٥ )



'احسن الوعاء لآداب الدعاء' کے نام سے رئیس المتکلمیں والد ماجد سرکار اعلی حضرت حضرت مولانا نقی علی خان علیہ الرحمہ والرضوان نے ایک کتاب لکھا ، ذیل المدعاء لأحسن الوعاء کے نام سے حضور اعلی حضرت نے اس پر حاشیہ لگایا ، والد ماجد نے اس کتاب کے فصل چہارم میں امکنۂ اجابت کے عنوان سے ٢٣ ایسے مقامات کا ذکر فرمایا ، جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں ، اس میں حضور اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ٢١ مقامات کا اضافہ کیا ، کل ملاکر ٤٤ ہو گئے ۔


اس میں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :

سی نہم (٣٩) :مرقد مبارک حضرت خواجہ غریب نواز معین الحق والدین چشتی قدس سرہ 

یعنی سرکار غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ وہ عظیم بارگاہ ہے جہاں سے منگتے خالی نہیں جاتے ، دعائیں رد نہیں ہوتیں ، بس خلوص کے ساتھ صدق دل سے دعا ہونی چاہیے ،

خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلی تیرا 

کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا 

✍️ استاذ زمن علامہ حسن رضا خان صاحب



ذیل میں حضور خواجہ پاک سے آپکی والہانہ عقیدت کا اندازہ لگائیں ، جب صرف اجمیر لکھنے کے تعلق سے سوال ہوا تو آپ نے کیسا محبت بھرا جواب دیا۔


مسئلہ ۳۸: ا ز سرکار اجمیر مقدس لنگر گلی مسئولہ حکیم غلام علی صاحب ۶ شوال ۱۳۳۹ھ

اگر کوئی مولوی اپنے مدرسہ کے دروازے پر اور خلافت کے بورڈ پر اور خلافت کی ٹوپی پر اور خلافت کی رسید پر فقط اجمیر لکھے کیا اجمیر کے ساتھ شریف نہ لکھنا اور اصلی نام غلام معین الدین پر غلام نہ لکھا خلاف عقیدہ اہلسنت ہے یا نہیں؟ بینوا تو جروا


الجواب :

اجمیر شریف کے نام پاک کے ساتھ لفظ شریف نہ لکھنا اور ان تمام مواقع میں اس کا التزام کرنا اگر اس بنا پر ہے کہ حضور سیدنا خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جلوہ افروزی حیات ظاہری و مزار پر انوار کو (جن کے سبب مسلمان اجمیر شریف کہتے ہیں) وجہ شرافت نہیں جانتا تو گمراہ بلکہ عدو اللہ ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں ، اللہ عزوجل فرماتا ہے : "من عادٰی لی ولیاً فقد اٰذنته بالحرب" ترجمہ : جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی اس کے خلاف میرا اعلان جنگ ہے۔

اور اگر یہ ناپاک التزام بربنائے کسل و کوتاہ قلمی ہے تو سخت بے برکتا اور فضل عظیم وخیر جسیم سے محروم ہے ، کما افادہ الامام المحقق محی الدین ابوزکریا قدس سرہ فی الترضی ( جیسا کہ امام محقق محی الدین ابوزکریا قدس سرہ نے ترضی میں بیان فرمایا ہے۔ ت) اور اس کا مبنٰی وہابیت ہے تو وہابیت کفر ہے، اس کے بعد ایسی باتوں کو کیا شکایت ع ما علي مثله بعد الخطاء

خطا کے بعد اس کی مثل مجھ پر نہیں 


اپنے نام سے لفظ غلام اس بنا پر ہے کہ حضور خواجہ خواجگان رضی اللہ تعالٰی عنہ وعنہم کا غلام بننے سے انکار واستکبار رکھتا ہے، تو بدستور گمراہ اور بحکم حدیث مذکورہ عدو اللہ ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ، قال اللہ : ﴿الیس فی جھنم مثوی للمتکبرین﴾۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: کیا نہیں جہنم میں ٹھکانا متکبرین کا ، اور اگر بربنائے وہابیت ہے کہ غلام اولیائے کرام بننے والوں کو مشرک اور غلام محی الدین و غلام معین الدین کو شرک جانتا ہے تو وہابیہ خود زندیق، بے دین،کفار ومرتدین ہیں ﴿وللکٰفرین عذاب مھین﴾ اور کفار کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے

واللہ تعالٰی اعلم۔

( فتاوی رضویہ شریف ج ١٥ ص ٢٦٧ )


تقریباً دو بار سرکار اعلی حضرت کو حضور خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضری کی سعادت ملی ، دوسری مرتبہ سفر حج سے واپسی کے بعد جو سفر اجمیر شریف ہے وہ عقیدت و محبت کی عجب داستان ہے ، اہل محبت کو ضرور پڑھنا چاہیے ، اس سفر میں ایک انگریز افسر کو کیسے اسلام کی نعمت ملی ، ملاحظہ فرمائیں :



         ’’اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کا، سلطان الہند اجمیری کی خانقاہ میں عرسِ غریب نواز پر وعظ ہوا کرتا تھا، وعظ کا اہتمام خود خانقاہ شریف کے ’’دیوان‘‘ صاحب کیاکرتے تھے۔جس میں عُلما و فُضَلا شرکت کرتے۔ بعض دفعہ دَکن کے حکمراں میر محبوب علی خان اور میرعثمان علی خان شریک وعظ ہوتے۔ اعلیٰ حضرت کا وعظ سننے کے لیے بے شمار خلقت، وہاں ہوا کرتی۔


                        اس مرتبہ، جب اعلیٰ حضرت، بریلی شریف سے اجمیر شریف عرس میں حاضری کے لیے جانے لگے، تو ان کے ہمراہ ،دس گیارہ مریدین بھی تھے۔ دہلی سے اجمیر شریف تک جانے کے لیے’’بی بی اینڈ سی آئی آر‘‘ریل چلا کرتی تھی۔ دورانِ سفرجب یہ ریل گاڑی’’پُھلیرہ جنکشن‘‘ پر پہنچتی، تو قریب قریب، مغرب کاوقت ہوجاتا تھا۔ ’’پُھلیرہ‘‘ اس دور کے ہند کا بہت بڑا ریلوے جنکشن ہوا کرتا تھا۔ جہاں، سانبھر، جودھ پور اور بیکانیر سے آنے والی گاڑیوں کا بھی کراس ہوا کرتا تھا۔ ان تمام دوسری لائنوں سے آنے والے مسافر، اجمیر شریف جانے کے لیے اسی میل گاڑی کو پکڑتے تھے، اس لیے یہ میل گاڑی، پُھلیرہ اسٹیشن پر تقریباً چالیس منٹ ٹھہرا کرتی تھی۔


                        جب اعلیٰ حضرت سفر کر رہے تھے، توپُھلیرہ جنکشن پر پہنچتے ہی مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ: نمازِ مغرب کے لیے جماعت پلیٹ فارم پر ہی کر لی جائے۔ چنانچہ، چادریں بچھا دی گئیں اور لوگوں میں سے جن کا وضو نہ تھا، انہوں نے تازہ وضو کر لیا۔


                        اعلیٰ حضرت ہر وقت با وضو رہتے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ: میرا وضو ہے، اور امامت کے لیے آگے بڑھے۔ اور پھر فرمایا کہ: آپ سب لوگ پورے اطمینان کے ساتھ، نماز ادا کریں۔ اِنْ شَاء اللہ گاڑی ہرگز اُس وقت تک نہ جائے گی، جب تک کہ ہم لوگ نماز پورے طور سے ادا نہیں کر لیتے ہیں...... یہ فرما کر، اعلیٰ حضرت نے امامت کرتے ہوئے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ مغرب کے فرض کی جب ایک رکعت ختم کر چکے ،تو ایک دَم گاڑی نے وِہشل (Whistle) دے دی۔


                        پلیٹ فارم پر دیگر بکھرے ہوئے مسافر تیزی کے ساتھ اپنی اپنی سیٹوں پر گاڑی میں سوار ہو گئے، مگر آپ کے پیچھے، نمازیوں کی یہ جماعت پورے استغراق کے ساتھ نماز میں اسی طرح، برابر مشغول رہی۔ دوسری رکعت، مغرب کے فرض کی ہو رہی تھی کہ گاڑی نے اب تیسری اور آخری وِہشل بھی دے دی۔ مگر ہوا کیا کہ ریل کا انجن، آگے کو نہ سرکتا تھا۔ میل(Mail) گاڑی تھی۔ کوئی معمولی پسنجر گاڑی نہ تھی۔ اس لیے ڈرائیور اور گارڈ، سب پریشان ہوگئے کہ آخر یہ ہوا کیا کہ گاڑی آگے نہیں جاتی؟ انجن کو ٹیسٹ کرنے کے لیے ڈرائیور نے گاڑی کو پیچھے کی طرف ڈھکیلا تو گاڑی پیچھے کی سمت چلنے لگی۔ انجن بالکل ٹھیک تھا۔ مگر جب ڈرائیور اسی انجن کو آگے کی طرف ڈھکیلتا، تو انجن رُک جاتا تھا۔ اتنے میں اسٹیشن ماسٹر، جو انگریز تھا، اپنے کمرہ سے نکل کر پلیٹ فارم پر آیا۔ اور اس نے ڈرائیور سے کہا کہ انجن کوگاڑی سے کاٹ کر دیکھو۔ آیا چلتا ہے، یا نہیں؟ چنانچہ، اس نے ایسا ہی کیا۔ انجن کو گاڑی سے کاٹ کر جب چلایا، تو بخوبی پوری رفتارسے چلا۔ کوئی بھی خرابی اس میں نظر نہ آئی- مگرجب ریل کے ڈبوں کے ساتھ جوڑ کر اسی انجن کو چلایاگیا، تو وہ پھر اسی طرح جام ہو گیا، اور ایک انچ بھی آگے کو نہ چلا۔ ریل کا ڈرائیور اور سب لوگ بڑے حیران وپریشان کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے کہ: انجن، ریل کے ساتھ جُڑ کر آگے کو نہیں جاتا؟ اسٹیشن ماسٹرنے گارڈ سے پوچھا، جو نمازیوں کے قریب ہی کھڑا تھا کہ: یہ کیا بات ہے کہ انجن الگ کرو، توچلنے لگتا ہے اور ڈبوں کے ساتھ جوڑو تو بالکل پٹری پر جام ہو کر رہ جاتاہے؟ وہ گارڈ مسلمان تھا۔ اس کے ذہن میں بات آگئی، اس نے اسٹیشن ماسٹرکو بتایاکہ: سمجھ میں یہ آتا ہے کہ یہ بزرگ جو نماز پڑھا رہے ہیں، کوئی بہت بڑے ولی اللہ معلوم ہوتے ہیں، یقیناً اس کے علاوہ اور کوئی ٹیکنیکل وجہ نہیں۔ اب جب تک کہ یہ بزرگ اور ان کی جماعت، نماز ادا نہیں کر لیتی، یہ گاڑی مشکل ہے کہ چلے۔ یہ خداے تعالیٰ کی طرف سے ان ولی اللہ کی کرامت معلوم ہوتی ہے۔ بس اب ان کے نماز ادا کرنے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ اسٹیشن ماسٹر کو یہ بات سمجھ میں آگئی اور وہ کہنے لگا کہ بلاشبہہ، یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ نمازیوں کی جماعت کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ نماز میں اعلیٰ حضرت و مریدین کا استغراقِ عبادت اور خشوع و خضوع کا روح پرور منظر دیکھ کر وہ بے حد متاثر ہوا۔ انگریزی اس کی مادری زبان تھی، مگر وہ بے تکلف اردو میں کلام کرتا تھا۔ گارڈ کے ساتھ اس کی ساری گفتگو اردو ہی میں تھی۔ غرض اعلیٰ حضرت نے سلام پھیرا اور بآوازِ بلند درود شریف پڑھ کر دُعا میں مصروف ہو گئے۔ دُعا سے فارغ ہوئے تو آگے بڑھ کر نہایت ادب کے ساتھ اسٹیشن ماسٹر (انگریز) نے اردو ہی میں عرض کیا کہ : حضرت! ذرا جلدی فرمائیں۔ یہ گاڑی آپ ہی کی مصروفیتِ عبادت کے سبب چل نہیں رہی ہے۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایاکہ:


                        بس ابھی نماز پڑھ کر ہم لوگ تھوڑی دیر میں فارغ ہوں گے اور اِنْ شَاءَ اللہ  پھرگاڑی چلے گی۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ نماز کا وقت ہے۔ کوئی بھی سچا مسلمان نماز قضانہیں کر سکتا۔ نماز ہر مسلمان پر فرض ہے۔ گاڑی اِنْ شَاءَ اللہ  نہیں جائے گی، جب تک ہم لوگ اطمینان کے ساتھ نماز ادا نہیں کرلیتے۔ اسٹیشن ماسٹر پر اسلام کی روحانی ہیبت طاری ہوگئی۔


                        اعلیٰ حضرت اور مریدین نے سکون کے ساتھ، جب نماز پورے طور پر ادا کر لی اور دُعا پڑھ کر فارغ ہوئے تو اعلیٰ حضرت نے پاس ہی کھڑے ہوئے انگریز اسٹیشن ماسٹر سے فرمایا کہ: اِنْ شَاءَ اللہ   اب گاڑی چلے گی۔ یہ کہا اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی نے سیٹی دی اور چلنے لگی۔ اسٹیشن ماسٹر نے اپنے انداز میں سلام کیا اور آداب بجا لایا۔ مگر اس واقعۂ کرامت کا ،اس کے ذہن اور دل پر بڑا گہرا اثر پڑا۔


                        بہر کیف! گاڑی کے ساتھ اعلیٰ حضرت اور ان کے یہ چند مریدین تو اجمیر شریف روانہ ہوگئے، مگر اسٹیشن ماسٹر سوچ میں پڑ گیا۔ رات بھر وہ اسی غور و فکر میں رہا، اس کو نیند نہ آئی۔ صبح اُٹھا تو چارج اپنے ڈپٹی کے حوالہ کر کے اپنے افرادِ خاندان کے ساتھ حاضری کے لیے اجمیر شریف کو چل پڑا، تا کہ وہاں درگاہِ خواجہ غریب نواز میں حاضر ہو کر اعلیٰ حضرت کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرے۔ جب اجمیر شریف پہنچا تو دیکھا کہ: درگاہ شریف کی شاہجہانی مسجد میں اعلیٰ حضرت کا ایمان افروز وعظ ہو رہا ہے۔ وہ وعظ میں شریک ہوا۔ بیان سنا اور جب وعظ ختم ہوا تو قریب پہنچ کر اس نے اعلیٰ حضرت کے ہاتھ چوم لیے، اور عرض کیا کہ: جب سے آپ پُھلیرہ اسٹیشن سے ادھر روانہ ہوئے ہیں میں اس قدر بے چین ہوں کہ مجھے سکون نہیں آتا۔ آخر اپنے افرادِ خاندان کے ہمراہ، یہاں حاضر ہو گیا ہوں اور اب آپ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔آپ کی یہ روحانی کرامت دیکھ کر مجھے اسلام کی آسمانی صداقت کا یقینِ کامل ہو گیا ہے۔اور مجھے پتہ چل گیا ہے کہ بس اسلام ہی خداے تعالیٰ کا سچا دین ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد نے ہزارہا زائرینِ دربارِ خواجہ غریب نواز کے سامنے اس انگریز کو اور اس کے نو افرادِ خاندان کو وہیں کلمہ پڑھایا اور مسلمان کیا، اور خود اس کا اسلامی نام بھی غوثِ پاک کے نام پر ’عبدالقادر‘ رکھا، اس کا انگریزی نام رابرٹ تھا۔ اور وہ رابرٹ صاحب کے نام سے مشہور تھا۔ آپ نے اس کو مسلمان کرنے کے بعد سلسلۂ قادریہ میں مرید بھی کیا اور پھر ہدایت فرمائی کہ:


                        ہمیشہ اِتِّباعِ سنَّت کا خیال رکھنا۔ نماز کسی وقت نہ چھوڑنا، نماز روزہ کی پابندی بہت ضروری ہے۔ جب موقع ملے تو حج پہ بھی ضرور جانا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور ہمیشہ خدمتِ دین کاخیال رکھنا؛ اسلام کا پھیلانا بھی قرآن پاک نے ہر مسلمان کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ اپنے وطن بھی جب جاؤ تو وہاں بھی دین کو پھیلانے کی خدمت انجام دینا۔ یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اب خود بھی قرآنِ پاک کی تعلیم حاصل کرو اور اپنے تمام افرادِ خاندان کو بھی قرآنِ پاک کی تعلیم دلواؤ۔ غرض آپ نے اسلام اس کے دل میں اُتار دیا اور اپنی عارفانہ جنبشِ نگاہ سے اس کے شیشۂ دل کو عشقِ رسول پاک (ﷺ) کے عطر سے بھر کر، اس کی روح کو مہکا دیا۔ وہ اسلام کا شیدا اور وارفتہ ہو گیا۔ اس انگریز کے اس قبولِ اسلام کا یہ واقعہ، اس وقت کا ایک اہم واقعہ تھا۔ اس لیے کہ یہ انگریز کوئی معمولی درجہ کا انگریز نہ تھا، بلکہ ایسے گھرانے کا فرد تھا، جس کے بہت سے افراد ہند اور انگلستان میں مناصب جلیلہ پر فائز تھے۔ اہلِ علم اور باوقار لوگ تھے؛ اور عیسائی مشن کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ اس انگریز کے مع افرادِ خاندان مسلمان ہو جانے کے اس واقعہ سے عیسائی مشنریوں کے جرگہ میں ہل چل پڑگئی۔ ان کے پادری بوکھلا گئے۔ یہ کیا کم انقلابی واقعہ تھا؟


                        پھر اس نَومسلم انگریز نے جیسا کہ بزرگوں نے بتایا زندگی بھر اسلام کی بڑی خدمت کی۔ وہ قرآنِ کریم ختم کرنے کے بعد ہندوستان سے وطن واپس لوٹ گیا، اور وہاں جا کر اسلام کی خدمت کے لیے وقف ہو گیا۔ اعلیٰ حضرت کی روحانی کرامت اور عارفانہ جنبشِ نگاہ نے اس کی ساری کایا پلٹ دی۔ اسے آشنائے عشقِ رسول (ﷺ ) کر کے کام کا آدمی بنا دیا۔ منزل پر پہنچا دیا۔"(ملخصاً؛سالنامہ معارفِ رضا کراچی، ص۱۵۷ تا ۱۶۱، ۱۴۰۴ھ/۱۹۸۳ء، بقلم علامہ نور احمد قادری، بروایت حاجی عبدالنبی قادری)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اغیار کی نظر میں

مسلم خواتین کی چیخ و پکار اور ہمارا کردار