مدارس کے حالات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں ؟
مدارس کے حالات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں ؟
✍️محمد شہاب الدین علیمی
دین اسلام کی تعلیمات کی بنیاد مدارس پر ہے ، مدارس اسلامیہ دین کا مضبوط قلعہ ہیں ، اگر یہ سلامت نہ رہے یا مضبوط نہ ہوئے تو پھر ہمارے عقیدے محفوظ نہ رہیں گے ، ہمارا دین لوٹ لیا جائےگا ، اگر ہم نے اپنے مدارس کو مضبوطی نہ دی تو ہم اپنی عوام کا عقیدہ محفوظ نہ رکھ سکیں گے ، اس کے لیے امیر لوگ بالخصوص خانقاہیں جو پیسوں سے بھرتی جا رہی ہیں اور اہلیان خانقاہ دین کا کام ایک پیسے کا نہیں کرتے ہیں ، صرف اپنا بنگلہ بڑا ہوتا جارہا ہے ، دن بہ دن گاڑیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ( الا ما شاء اللّٰہ ) ، ان کی ذمہ داری ہے خوب پیسہ خرچ کریں ، تاکہ کتاب ، طلبہ کے قیام و طعام ، روشنی و دیگر ضروریات اور بہترین اساتذہ کی کمی نہ ہو ۔
دوسری چیز یہ کہ مدارس کے نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک ٹرانسفارم ہو ، جو کچھ مدارس کے ذمہ دار علماء کی تنظیم بنائے ، اور ہر ایک کو چند ( مثلا دس ) مدرسوں کی ذمہ داری دے اور وہ ان دس مدارس سے ایک دو اساتذہ کو لے کر ان سب کی تنظیم بنا لیں ۔
یہ کام اسی وقت ہوگا جب خلوص اور نیک نیتی ہو ، دنیا کی محبت اور شہرت و جاہ کی طلب نہ ہو ، اور آپس کے فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ، دین کا درد لے کر ، ہر ایک سنی کو اپنے ساتھ ملا کر کام کیا جائے۔
ہمارے مدارس میں تعلیم کو لےکر اساتذہ اور طلباء کی بہت کمیاں ہیں ، جو روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں ، وقت رہتے ان کا صحیح ہونا ضروری ہے ، اساتذہ اپنی کتابوں کا مطالعہ کیے بغیر ہی طلبہ کو درس دیتے ہیں ، اور طلباء بھی بغیر مطالعہ کے درس میں شریک ہوتے ہیں ، اساتذہ طلبہ کی تربیت اور تعلیمی سرگرمی پر توجہ نہیں دیتے اور نہ طلباء ان چیزوں کی فکر کرتے ہیں ، اساتذہ و طلباء دونوں اپنے وقت کا زیادہ تر حصہ ضائع کرتے ہیں ، اس کے علاوہ بہت سی کمیاں ہیں۔
انفرادی طور پر دو چند مدارس ہی ان کمیوں کو دور کر سکتے ہیں ، لیکن اگر سارے یا اکثر مدارس کو بہتر بنانا ہو تو اس کے لیے باقاعدہ ایک نظام کے تلے کام کرنا ہوگا ، جس کی باگ ڈور ایک مؤثر شخص کے ہاتھ میں ہو اور اس کے ما تحت ذمہ دار افراد ہوں ، جو ہر مدارس کی سرگرمیوں کا جائزہ لے کر اپنی رایے پیش کریں اور اس کے مطابق مشورہ کر کے کام کیا جائے۔
نیز وقت کے تقاضوں کے مطابق نصاب تعلیم میں تبدیلی بہت زیادہ ضروری ہے ، مثلا فارسی کی ایک دو کتابیں چلانے سے بہتر ہے کہ بالکلیہ کوئی کتاب نہ چلائی جائے ، اس کی جگہ عربی کتابیں داخل کی جائیں ، ابتدا میں نحو و صرف اردو زبان میں پڑھائی جائے ، تاکہ بچے کہ صرف رٹنا اور سمجھنا رہے ، عربی و فارسی عبارت کو حل کرنے میں پریشانی نہ ہو ، عربی ادب کو مضبوط کیا جائے ، کنویں و تیمم کے ابواب کو خارج درس کیا جائے نیز ہر فن میں کوئی ایک کتاب مکمل پڑھائی جائے ، مثلا فقہ میں قدوری شریف ، اصول فقہ میں اصول الشاشی ، نحو میں ھدایۃ النحو ، صرف میں شذی العرف ، منطق میں مرقات ، نیز یہ کہ سابعہ و ثامنہ کو تخصص کے طور پر پڑھایا جائے ۔
اور بھی اس کے علاوہ بہت سی باتیں ہیں ، لیکن صرف ان پر ہی عمل کر لیا جائے تو کافی حد تک نظام درست ہو سکتا ہے
تبصرے