شیخ الحدیث حضور قمر العلماء کا انداز تدریس

 🌹حضور قمر العلما کا انداز تدریس _مشاہدات کے آئینے میں 🌹


✍️ محمد شہاب الدین علیمی



اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جابجا علماء کرام کی عزت و عظمت کا ذکر فرمایا ہے۔ احادیث رسول ﷺ میں بھی علماء دین کے فضائل و مناقب کا جگہ جگہ تذکرہ ہے ۔ ان فضیلتوں کی جامع شخصیات میں حضور قمر العلماء حضرت علامہ و مولانا محمد قمر عالم قادری صاحب قبلہ کا نام حد درجہ نمایاں ہے ۔ جو علم آپ کے سینے میں موجود ہے ، وہ کردار سے جھلکتا ہے ، اخلاق اس کی گواہی دیتے ہیں ، گفتار اس کا ثبوت دیتے ہیں ۔آپ کی ذات بابرکات *العالم ھو العامل* کی مصداق ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ایسی بافیض شخصیت کے سائے تلے مجھے سات سال تک علم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ حضرت کے پڑھانے کا انداز کیا تھا ، اس کو آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں ۔


خیر الکلام ما قل و دل


سب سے بہترین کلام وہ ہے جو مختصر ہو اور مقصد تک پہنچا دے ۔ حضرت شیخ صاحب قبلہ کی عادت کریمہ تھی کہ بہت مختصر کلام فرماتے لیکن وہ کلام اپنے افراد کو جامع اور محیط ہوتا ۔ کتابوں کی تعریفات کے علاوہ حضرت اپنی مختصر اور جامع مانع تعریف بیان فرماتے ۔ مثلا دلالت وضعیہ لفظیہ : وضعِ واضع کے سبب لفظ معنی کو بتایے 

وضعیہ غیر لفظیہ : وضعِ واضع کے سبب غیر لفظ معنی کو بتائے ۔ اس طرح سے مختصر سی تعریف بتاتے اور وہیں یاد بھی کرا‌ دیا کرتے ۔


عبارت خوانی : 


حضرت کی درسگاہ عبارت خوانی کی وجہ سے سب سے ممتاز ہے ، طلبہ عبارت حل کیے بغیر درسگاہ میں داخل نہیں ہوتے ، اگر عبارت میں غلطی ہوئی تو کھڑا ہونا پڑتا یا قیام و قعود فرمانا پڑتا ۔ مسئلہ صرف عبارت کا نہیں تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ وجہ اعراب بھی بتانا پڑتا تھا کہ مرفوع ، منصوب یا مجرور کیوں ہے ؟ ھدایت النحو لے کے گئے ، پہلا دن ہے ۔ طالب علم نے عبارت شروع کی بسم اللّٰهِ الرحمن الرحیم ۔ الحمد للّٰه رب العٰلمین 

اب سوال شروع ہوتا ۔ اسم مجرور کیوں ہے ؟ مجرور کی کتنی قسمیں ہیں ؟ مجرور بالحرف ہے یا مجرور بالاضافت ؟ حروف جارہ کتنے ہیں ؟ کلمۂ جلالت مفرد ہے یا مرکب ؟ اللہ کیا ہے ؟ الرحمن الرحیم مجرور کیوں ہیں ؟ متعلق کس سے ہے ؟ الف لام کی کتنی قسمیں ہیں ؟ الحمد پہ الف لام کون سا ہے ؟ مرفوع کیوں ہے ؟ مرفوعات کتنے ہیں ؟ گویا کہ پہلے ہی دن اجمالا پوری نحو کا اعادہ کروا دیا جاتا۔ عبارت خوانی کے بعد کل کے سبق کا اعادہ ہوتا کہ سمجھا کیا ہے ؟ یاد کیا کہ نہیں ؟ سب سے کوئی نہ کوئی سوال ہوتا ۔ اس کے بعد اس دن کا درس شروع ہوتا ۔ پھر اس کا خلاصہ بتا دیتے اس کے بعد کسی ذہین بچے سے سبق کا خلاصہ بھی پوچھ لیا جاتا ۔ عبارت خوانی ، وجوہ اعراب ، اعادۂ سبق ، درس جدید کی تدریس ، اس کا خلاصہ ، پھر کسی بچے سے اس کا خلاصہ پوچھنا یہ سب کام ایک گھنٹی میں انجام پاتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس گھنٹی میں الحمد للّٰه ایسی برکت رکھی تھی۔


العلم فی الصدور لا فی السطور

علم وہی ہے جو سینے میں ہو ، نہ کہ وہ جو کتابوں میں لکھا ہے ۔ حضرت کی بافیض درسگاہ کا قانون تھا کہ جو بتایا جائے اس کو دل میں بسانا ہے ، کاپی یا کتاب میں درج نہیں کرنا ہے ۔ ذہن پر بھروسہ کرنے کی تلقین فرماتے کہ اس سے قوت حافظہ مضبوط ہوتا ہے ۔ جماعت اولی میں قواعد النحو کی گھنٹی میں یہ آیا کہ فاعل کا مفعول سے التباس ہو تو فاعل کو مقدم کرنا واجب ہے ۔ حضرت نے فرمایا التباس کا مطلب اشتباہ ۔ میں نے کتاب میں لکھ لیا ۔ دیکھتے ہی فورا ڈانٹ پڑی اور ارشاد فرمایا کہ دل پہ نوٹ کرو ، کتاب پہ نہیں ۔ کہ علم وہ ہے جو سینے میں ہو۔


ایک مرتبہ شرح جامی کی ایک عبارت سمجھ نہیں آ رہی تھی ، حاشیہ میں اس کا جواب تھا لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ میں دور بیٹھا تھا ۔ اس وقت حضرت کے حصے میں شرح جامی نہیں تھی بلکہ کافی لمبے وقت سے آپ کے حصے میں نہیں آئی تھی ۔ میں نے وہیں حضرت سے عبارت پڑھ کر اس کا حل مانگا ۔ تو حضرت نے فورا وہی حاشیہ والی بات بتائی ، میں حیرت میں پڑ گیا کہ سبحان اللّٰه! کتنا دن پڑھائے ہو گیا ہوگا لیکن ابھی تک کیسا ازبر ہے ! لیکن میری سمجھ میں نہ آیا ۔ تو قریب بلا کر کتاب سامنے رکھ کر سمجھایا ، پھر سمجھ آیا ۔ علم وہی ہے جو سینے میں محفوظ ہو ، ایسا محفوظ کہ حاشیہ کی باتیں بھی یاد ہوں۔


درس قرآن میں بھی عبارت پڑھواتے ۔ پہلے دن ہم نے سوچا اس میں کیوں پڑھوا رہے ہیں کہ عبارت تو لگی ہے ، لیکن اس میں وجہ اعراب پوچھنے لگے تب سمجھ آیا کہ یہ کیوں کیا گیا؟ اس کا فائدہ تصحیح عبارت میں بہت معاون ثابت ہوا کہ درس میں آنے سے پہلے عبارت حل کرنا پڑتا ۔ ثالثہ ہی میں اعراب القرآن اور جلالین شریف دیکھنی پڑتی تھی۔ اسی کی برکت ہے کہ الحمد للّٰه عبارت میں کافی سدھار ہے ۔


آپ نے علیمیہ میں تقریبا ٢٧ سال تک خدمت انجام دیا ، شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے ۔ اس کے بعد جامع اشرف کچھوچھہ شریف تشریف لے گیے اور اب وہاں بھی شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہیں ، اور مدرسہ کی صدارت کی ذمہ داری بھی آپ ہی کے ہاتھوں میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت کا سایہ دراز فرمائے اور ہم گنہگاروں پر حضرت کا فیض عام فرمائے ۔


٧ دسمبر ٢٠٢٣ بروز جمعرات

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اغیار کی نظر میں

مسلم خواتین کی چیخ و پکار اور ہمارا کردار