حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی

   حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی رضی اللّٰهُ تعالیٰ عنہ


  از۔ محمد شہاب الدین علیمی

متعلم ۔ جماعت سادسہ جامعہ علیمیہ جمدا شاہی


                            بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم


  تمہید : اس دنیائے فانی میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسے ایسے اولیاء کرام کو بھیجا کہ جن کے قدم ناز سے کفر و شرک کی بنجر زمینیں بہار ایمان سے شاداب ہو گئیں ، جن کی رودادِ زندگی لوگوں کو حیرت و استعجاب کے سمندر میں غرق کر دیتی ہے ، جو ولی ہونے کے ساتھ ساتھ ولی گر بھی ہوتے ہیں ، جن کے ریاضات و مجاہدات کو سن کر انسان سر پکڑ لیتا ہے ، جو مشائخ کے سردار اور اہل طریقت و معرفت کے پیشوا ہوتے ہیں اِن عظیم ہستیوں میں ایک عظیم ہستی حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی رضی اللّٰهُ تعالیٰ عنہ کی ہے۔

ولادتِ باسعادت : آپ کی ولادت باسعادت ٣٥٢ ہجری مطابق ٩٦٣ عیسوی میں ملک ایران کے قصبہ خرقان میں ہوئی۔آپ کا اسم گرامی علی بن احمد اور کنیت ابوالحسن ہے اور اسی کنیت سے آپ مشہور ہیں۔ طریقت میں بطریق اویسیت سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی رضی اللّٰهُ تعالیٰ عنہ سے آپ کی روحانی تربیت ہوئی ۔ آپ مشائخ کے سردار ، اوتاد و ابدال کے قطب اور اہل طریقت و معرفت کے پیشوا تھے ۔ توحید و معرفت میں کمال کے درجہ پر فائز تھے۔ حضرت استاذ ابو القاسم قُشیری رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ جب میں خرقان کے حدود میں داخل ہوا تو میری فصاحت و بلاغت زائل ہو گئی میں نے خیال کیا کہ میں اپنی ولایت سے معزول کر دیا گیا۔


آپ کو حضرت بایزید بسطامی رضی اللّٰهُ تعالیٰ عنہ سے بڑی عقیدت تھی ۔ اوائل زندگی میں آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ عشاء کی نماز باجماعت خرقان میں ادا کرتے اور نماز سے فارغ ہوکر حضرت بایزید بسطامی رضی اللّٰهُ تعالیٰ عنہ کی زیارت کے لئے بسطام روانہ ہو جاتے وہاں پہنچ کر یوں دعا کرتے 

" خدایا! جو خلعت تو نے حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کو دی ہے وہ ابو الحسن کو بھی عطا کر"۔ پھر زیارت سے فارغ ہوکر خرقان کی طرف روانہ ہو جاتے اور پورے راستے میں شیخ کے مزار مبارک کی طرف پیٹھ نہ کرتے اور نماز فجر عشاء کے وضو سے خرقان میں ادا کرتے۔ ١٢ برس کی مسلسل حاضری اور دعاؤں کے بعد ایک دن مزار مبارک سے آواز آئی : اے ابوالحسن! اب تمہارے بیٹھنے کا وقت آ گیا ہے ۔ یہ سن کر آپ نے عرض کیا کہ میں تو اُمّی ( ان پڑھ ) ہوں رموزِ شریعت سے چنداں واقف نہیں۔ آواز آئی کہ جو کچھ تم نے خداۓ تعالی سے مانگا وہ سب کچھ تمہیں عطا کر دیا گیا ، سورہ فاتحہ شروع کرو۔ چنانچہ آپ نے شروع کیا اور جبخرقان پہنچے تو قرآن کریم ختم ہو گیا اور علوم ظاہری و باطنی آپ پر منکشف ہو گۓ۔


حضرت بایزید بسطامی رضی اللّٰهُ تعالیٰ عنہ سال میں ایک بار دہستان میں شہیدوں کی قبروں کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ جب موضع خرقان سے گزرتے تو ٹھہر جاتے اور اس طرح سانس لیتے جیسے کوئی خوشبو سونگھ رہے ہوں ۔ مریدوں نے پوچھا حضور آپ کس چیز کی بو سونگھتے ہیں ؟ ہم کو تو کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا : چوروں ، ڈاکوؤں اور رہزنوں کے اس گاؤں سے ایک مردِ خدا کی بو آتی ہے جس کا نام علی بن احمد رحمہ اللہ ہوگا اور کنیت ابوالحسن ہوگی ۔ اس میں تین باتیں مجھ سے زیادہ ہونگی ۔ اہل و عیال کا بوجھ اٹھائےگا ، کھیتی باڑی کرےگا اور درخت لگایا کرےگا۔

چند واقعات : ایک روز آپ بہت سے درویشوں کے ساتھ خانقاہ میں تشریف فرما تھے۔ سات دن سے فاقہ چل رہا تھا ایک شخص آٹے کی بوری اور ایک بکری لےکر حاضر ہوا اور آواز دی کہ میں یہ صوفیوں کے لیے لایا ہوں ۔ آپ نے درویشوں سے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو صوفی ہو وہ یہ لے لے مجھے یہ جرأت نہیں کہ میں تصوف کا دعویٰ کروں ، یہ سن کر کسی نے بھی نہ لیا اور وہ شخص واپس لے گیا۔


ایک شخص نے آپ سے ایک بار عرض کیا حضور مجھے اجازت دیں کہ میں لوگوں کو خدا کی طرف بلاؤں۔ آپ نے ارشاد فرمایا : کہ خدا کی طرف ہی بلانا خبردار کہیں اپنی طرف نہ بلانا ۔ اس نے کہا کہ حضور میں کیسے فرق کروں گا کہ میں خدا کی طرف بلا رہا ہوں کہ اپنی طرف بلا رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ جب تم دیکھوں کہ کوئی اور شخص لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلا رہا ہے اور تمہیں ناگوار گزرے تو یہ اپنی طرف بلانے کی علامت ہے۔


ایک بار سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ نے حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی رضی اللّٰهُ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ حضرت بایزید رحمہ اللہ علیہ کی کوئی حکایت ارشاد فرمائے ، آپ نے فرمایا سنو کہ انہوں نے فرمایا ہے جس نے مجھے دیکھا وہ بدبختی سے محفوظ ہوگیا ۔ محمود نے کہا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ تو بایزید سے زیادہ تھا ۔ پھر ابوجہل اور ابولہب جنہوں نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کیوں شقی رہے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا ، اے محمود ادب کو ملحوظ رکھ اور اپنی بساط سے باہر پاؤں مت رکھ۔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے کسی نے نہیں دیکھا اس کی دلیل قرآن حکیم میں یوں ہے : وَتَرَاهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَهُم لَا یُبْصِرُوْنَ ( اعراف - آیة ١٩٨ ) ترجمہ۔ اور تو ان کو دیکھتا ہے کہ وہ چشم ظاہری سے تیری طرف دیکھتے ہیں حالانکہ چشم بصیرت سے تجھے نہیں دیکھتے ۔محمود! ابو جہل اور ابولہب نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو چشم ظاہر سے دیکھا جبکہ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیہم نے چشم باطن سے دیکھا ۔ ابوجہل اور ابولہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک یتیم کی حیثیت سے دیکھا جبکہ صحابہ کرام رضی الله عنهم نے آپ کو اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے دیکھا یہ بات محمود کے دل کو بہت اچھی لگی اور عرض کرنے لگا کہ مجھے نصیحت فرمائیے ، آپ نے فرمایا کہ چار چیزوں کو اختیار کر ۔ پرہیز گاری ، نماز با جماعت ، سخاوت ، خلق خدا پر شفقت۔ اخیر میں رخصت ہوتے وقت سلطان نے کہا کہ حضور مجھے اپنی کوئی یادگار مرحمت فرمائیے آپ نے اپنا پیرہن مبارک عطا فرمایا غرض سلطان وہاں سے چلا آیا اور جب سومناتھ کے مندِر کو فتح کرنے کے لیے لشکر کشی کی اور شکست کا خطرہ پیدا ہونے لگا تو اضطراب و بے قراری کی حالت میں گوشہ تنہائی میں آپ کے پیراہن مبارک کو ہاتھ میں لے کر اور پیشانی زمین پر رگڑ کر یوں دعا کی : "الٰہی بآبروئے ایں فرقہ را بریں کفار ظفردہ ہرچہ ازینجا غنیمت بگیرم بدرویشاں بدہم" یعنی خداوند اس فرقہ کے طفیل اور صدقے مجھے ان کافروں پر فتح دے ۔ یہاں سے جو مال غنیمت ہاتھ آئے گا وہ سب کا سب درویشوں ، محتاجوں اور سخت ضرورت مندوں کو دے دوں گا ۔ اچانک لشکر کفار کی طرف سے رعد و ظلمت ( آسمانی بجلی کی کڑک اور تاریکی ) اس شدت سے نمودار ہوئی کہ انہوں نے ایک دوسرے کو ہی تہ تیغ کر دیا اور باقی مانده ادھر ادھر بھاگ گئے ۔ اس طرح اسلامی لشکر کو فتح و نصرت نصیب ہوئی ۔ اسی رات محمود نے خواب میں دیکھا کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ فرما رہے ہیں ، اے محمود! تونے ہمارے پیراہن کی قدر نہ کی ، اگر تو اس وقت خدا تعالی سے دعا کرتا کہ تمام کفار مسلمان ہو جائیں تو سب مسلمان ہو جا تے ۔


وصال مبارک : جب آپ کی وفات کا وقت نزدیک آیا تو وصیت کی کہ میری قبر تیس گزر گہری کھودنا تاکہ حضرت بایزید رحمة اللہ علیہ کی قبر سے اونچی نہ رہے ۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ آپ کا وصال خرقان میں عاشورہ( ١٠ محرم الحرام ) کے دن ٤٢٥ ھ میں ہوا ۔ مشہور ہے کہ آپ نے فرمایا تھا ۔ جو شخص میرے مزار کے پتھر پر ہاتھ رکھ کر دعا مانگے گا وہ قبول ہو جائے گی ۔ یہ بات تجربہ میں بھی آچکی ہے ۔


اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرماۓ نیز ان کا فیض ہم سب پر عام فرماۓ۔

آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ


٢٥ ذی القعدہ ١٤٤٢ھ مطابق ٧ جولائی ٢٠٢١ع ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اغیار کی نظر میں

سہل بن عبداللہ تستری علیہ الرحمہ

قوم کے حالات