شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی علیہ الرحمۃ
🌹 ٨ محرم الحرام وصال شیرِ بیشئہِ اہل سنت مولانا حشمت علی خان🌹
از۔ *محمد شہاب الدین علیمی*
متعلم۔ *جامعہ علیمیہ جمدا شاہی*
تاریخ۔ ٨ محرم الحرام ٢٤٤١ھ
28 اگست 2020 ؏
اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں بہت سے انسانوں کو پیدا فرمایا ، مگر کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو ایسے ایسے عظیم کام انجام دے دیتے ہیں کہ دنیا انہیں بُھلا نہیں پاتی اور وہ تاریخ کا ایک روشن باب بن جاتے ہیں ۔ شیر بیشہ اہل سنت ، تلمیذ و مرید اعلی حضرت رضی اللّٰہ تعالی عنہ ، سلطان المناظرین مولانا حشمت علی خان علیہ رحمة الرحمن کی ذات بھی انہیں انسانوں میں سے ایک تھی ۔ انہوں ایسے ایسے عظیم کارہاے نمایاں انجام دیے کہ دنیا آج انہیں بُھلانے سے قاصر ہے ۔
آپ کی ولادت ٩١٣١ھ میں لکھنؤ میں ہوئی اور ابتدائی کتابیں دیوبندی مولویوں سے پڑھی ، مگر عالم یہ تھا کہ بچپن میں ہی ان سے بحث کرتے اور درس کا وقت بحث میں ختم کر دیتے اور انہیں لاجواب کر دیتے تھے ۔ دس سال کی عمر میں حفظ مکمل کیا ۔ اللّٰہ پاک نے عظیم ذہانت و فطانت عطا فرمائی تھی ۔ ٦٣٣١ھ میں اعلی حضرت رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے مرید ہوۓ ۔ مدرسہ میں اعتراضات کی بھرمار ہونے لگی مگر مجدد اعظم حضور اعلی حضرت رضی اللّٰہ تعالی عنہ کے فیضان سے تمام اعتراضات کا دندان شکن جواب دیتے تھے ۔ درس کا وقت انہیں سب چیزوں میں ختم ہو جاتا تھا اور دیوبندی مولوی چاہتے کہ کسی طرح آپ کو دیوبندی بنایا جاۓ جب آپ نے دیکھا کہ تعلیم کا نقصان ہو رہا ہے تو حضور اعلی حضرت رض اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں ایک خط لکھا اور سارا واقعہ اس میں بیان فرما دیا۔ ادھر سے جواب آیا کہ یہیں آ جاو انتظام ہو جاۓگا۔ جنانچہ ٦٣٣١ھ میں آپ بریلی شریف تشریف لے گئے اور منظر اسلام میں آپ کی تعلیم شروع ہو گئی اور ساتھ ہی ساتھ شیخ سے فیض بھی حاصل کرنے لگے۔
٨٣٣١ھ کا واقعہ ہے۔ ایک دن اعلی حضرت رضی اللّٰہ تعالی عنہ کو خطوط پڑھ کر سنا رہے تھے تو ایک خط میں لکھا تھا کہ یہاں ایک دیوبندی مولوی جو اشرف علی تھانوی کا مرید خاص اور خلیفہ ہے اس نے سنیوں کو مناظرہ کا چیلنج دیا ہے آپ ایک سنی مناظر عالم کو بھیج دیں۔ شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی خان رحمة اللّٰہ تعالی علیہ نے کہاں کہ حضور اس فقیر کو ہی بھیج دیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا بہت مناسب ہے۔ اور تھانوی کی حفظ الایمان والی کفریہ عبارت کے بارے میں کچھ ارشاد فرمایا۔ پھر آپ کو دعا دے کر رخصت کیا۔ حضرت پہنچے اور تھانوی کی کفریہ عبارات پر مناظرہ شروع ہوا۔ حضرت نے تقریر فرمائی اور ایسے دلائل دیئے کہ وہ تجربہ کار مولوی تیسری ہی تقریر میں ڈھیر ہو گیا اور پانچ منٹ تک خاموش بیٹھا رہا۔ حضرت بار بار جواب کا مطالبہ کرتے رہے مگر وہ فَرَّ یَفِرُّ کی گردان کرتے ہوئے فرار ہو گیا۔( ماشاء اللّٰہ زمانہ طالب علمی میں ہی یہ حال تھا ) سنیوں نے نعرے تکبیر و رسالت بلند کیا اور صلٰوة و سلام پڑھا گیا۔اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا ماشاء اللہ آپ ابوالفتح ہیں۔ آپ کو قریب بلایا اور خود کھڑے ہوکر سینئہ اقدس سے لگایا، اپنا عمامہ مبارک شیر بیشہ اہل سنت کے سر پر رکھ دیا اور پانچ روپے نقد انعام دیا اس کے بعد قلم سے تحریر فرمایا کہ آج سے میں ان کا پانچ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کرتا ہوں۔
39۔1338ھ میں رمضان شریف کے مہینے میں سخت گرمی پڑتی تھی مئی اور جون کا مہینہ پڑتا تھا تھا۔ اعلی حضرت رضی اللّٰہ تعالی عنہ ضعف و نقاہت کی وجہ سے اتنی گرمی میں روزہ نہ رکھ سکتے تھے۔ تو آپ نے نینی تال کا سفر کیا اور دونوں سال کا رمضان شریف آپ نے وہیں گزارا اور روزہ رکھا اور روزے کا فدیہ دےکر چھٹکارا حاصل نہ کیا ( سبحان اللّٰہ العظیم کیا تقوٰی تھا )
ان دونوں سفر میں شیر بیشہ اہلسنت حضور اعلی حضرت کے ساتھ ان کی خدمت میں تھے۔ اس مدت میں آپ نے ان سے کتنا فیض حاصل کیا ہوگا اس کا کون اندازہ کر سکتا ہے!
آپ نے سنیت کا جو کام کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔زندگی بھر باطل فرقوں کا رد کیا۔ تقریر بھی کرتے رہے اور تصنیفی کام کو بھی نہیں چھوڑا۔منظر اسلام میں درس بھی دیتے رہے۔
ماہ شعبان المعظم 1340ھ میں منظر اسلام میں آپ کی دستار بندی ہوئی اور اسی میں پڑھانے لگے۔ جماعت رضاۓ مصطفی کے مفتی تھے۔درس سے تمام بچوں کو مطمئن کر دیتے۔ سمجھانے کا انداز نرالا تھا۔
ایک بار تین علمائے کرام مدرسے کا جائزہ لینے کے لئے آۓ آپ کو نوعمر دیکھ کر آپ کے کمرے میں رک گئے آپ نے سلام اور حال دریافت کرنے کے بعد پھر درس شروع کردیا۔ چنانچہ تینوں علمائے کرام نے باری باری آپ سے اعتراضات کیے اور آپ نے ان کا تسلی بخش جواب دیا ان کے شکوک رفع کئے اور انہیں مطمئن کر دیا وہ حضرات بہت خوش ہوئے۔
جس طریقے سے اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے رد بدعات و منکرات کیا اسی طرح سے شیر بیشہ اہل سنت نے بھی رد بدعات و منکرات کیا۔ آپ مظہر اعلی حضرت تھے۔
شیر بیشہ اہل سنت کا بسڈیلہ ( خلیل آباد ) میں مناظرہ ہوا ، جس میں وہابیوں کا ایک بہت ہی خراٹ اور مشہور مناظر تھا۔ حسام الحرمین ( مصنفہ اعلی حضرت ) میں علماء عرب نے جو دعائیہ کلمات اور تعریفیں لکھی تھیں وہی عبارت آپ پڑھ رہے تھے۔ عربی میں ایک جگہ تھا *أَدَامَ اللّٰہُ بَرَکَاتِہٖ*( اللہ پاک ہمیشہ ہم پر ان کی برکتیں جاری رکھے ) اس پر وہابی مولوی نے کہا مولانا حشمت علی اَدَامَ اللّٰہُ بَرَکَاتَہٗ ہے آپ بَرَکَاتِہٖ پڑھ رہے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: میرا اعراب پکڑ رہے ہو ، برکات جمع مونث سالم ہے اس کا اعراب حالت نصب میں کسرہ کے ساتھ آتا ہے۔ بھول گئے ہو کیا؟
راندیر ضلع سورت میں ایک دیوبندی مولوی سے مناظرہ ہوا۔ یہ مناظرہ اشرف علی تھانوی کی حفظ الایمان والی کفریہ عبارت پر ہوا ۔ عبارت یہ ہے
*پھر یہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس غیب سے بعض غیب مراد ہیں یا کل اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی کیا تخصیص ایسا علم غیب تو ہر صبی و مجنوں بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کو بھی حاصل ہے*۔
آپ نے فرمایا اس عبارت میں حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سخت توہین ہے اور یہ یقینا قطعا کفر ہے۔ اور جو اس کفر قطعی پر مطلع ہونے کے بعد بھی انہیں مسلمان جانے وہ بھی کافر ہے۔ پھر دیوبندی مولوی کھڑا ہوا اور کہا کہ ہرگز ہرگز توہین نہیں، اس عبارت میں اگرچہ تشبیہ ہے مگر وہ تشبیہ من بعض الوجوہ ہے جو کہ توہین نہیں ہے۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور تبسم کناں فرمایا مولوی محمد حسین صاحب آپ کے چہرے کی کیا تخصیص آپ کا چہرہ تو خنزیر کی طرح ہے ، اور مولوی احمد بزرگ تمہارے دانت کتے جیسے ہیں۔غرض ایک ایک دیوبندی وہابی جو سامنے مناظر تھے سب کا نام لےلے کر بیان فرمایا اور بیٹھ گئے۔ وہ لوگ آگ بگولہ ہوگئے بولے کے انسپکٹر صاحب کو کہو کہ گالیاں دے رہے ہیں وہ آئیں اور مناظرہ بند کروائیں۔ اسپیکٹر صاحب نے حضرت کو مخاطب کیا تو حضرت نے فرمایا بس صرف پانچ منٹ رک جائیے۔ حضرت نے کھڑے ہوکر فرمایا سنی بھائیوں مناظرہ ختم ہوگیا آپ کو فتح مبارک۔اس پر دیوبندی اچھلنے کودنے لگے اور بولے: گالیاں دےکر مناظرہ ختم کرو گے۔ جب ان کا جوش ٹھنڈا ہوا پھر حضرت کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تھانوی نے اپنی عبارت میں حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے علم وسیع وعظیم کو رذیل اشیاء سے تشبیہ دی اور یہ تشبیہ توہین ہے۔ مولوی محمد حسین نے کہا کہ یہ تشبیہ من بعض الوجوہ ہے جو کہ توہین نہیں۔ میں نے بھی جو تشبیہ دی ہے چہرے ، کان ، دانت وغیرہ کی۔ تو یہ تشبیہ ضرور ہے مگر تشبیہ من بعض الوجوہ ہے جو کہ توہین نہیں۔ مگر اسے سن کر کرآپ لوگوں کا اچھلنا کودنا ، شور مچانا کوتوال صاحب سے شکایت کرنا یہ اس بات کا ثبوت ہےکہ آپ اسے توہین سمجھ رہے ہیں لہاذا تھانوی کی عبارت میں بھی ضرور ضرور توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ تو مناظرہ ختم ہوا سنی بھائیوں کو فتح مبارک ہو۔ کوتوال صاحب نے بھی کہا کہ سنیوں کو مبارک۔ سلام پڑھا گیا اور حضرت تشریف لائے۔ دوسرے دن عشاء کی نماز کے بعد اس فتح کی خوشی میں جلسہ تہنیت منعقد ہوا اور علماء و مشائخ اور عوام و خواص کی اتفاق سے آپ کو شیر بیشہ اہلسنت کا خطاب دیا گیا۔ رب تعالیٰ کے کرم سے اس لقب کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ آپ کی ذات کا علم بن گیا ۔ نام نہ لیجئے صرف خطاب زبان سے ادا ہو دنیا سمجھ جائےگی کہ کس کا ذکر ہو رہا ہے ہے آپ کے وصال کو تقریبا 60 سال سے زائد ہو چکے مگر اس خطاب کی تازگی اور شادابی آج بھی برقرار ہے۔
آپ دو سال صاحب فراش رہے۔ وہابیوں دیوبندیوں نے آپ کو زہر دے دیا تھا جس سے آپ کے حلق میں تکلیف ہو گئی تھی۔ وصال سے تھوڑی دیر پہلے کاٹھیاواڑ کے رہنے والے ایک صاحب کو داخلئہ سلسلہ فرمایا اور سورہ یٰس شریف پڑھی آخری وقت تک کلمہ شریف پڑھتے رہے اور 8 محرم الحرام 1380ھ کو جوار رحمت میں جا بسے۔
اللّٰہ پاک ان کے مزار پاک پر رحمت و نور کی بارش فرماۓ اور ان کے صدقے میں ہماری دنیا و آخرت سنوار دے۔ آمین
تبصرے