داتا گنج بخش علیہ الرحمہ


 بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

٢٠ صفر المظفر وصال داتا گنج بخش علی بن عثمان ہجویری رضی اللّٰہ تعالی عنہ🌹


از۔ افقر الورٰی الی سید الورٰی

   *محمد شہاب الدین علیمیؔ*

متعلم۔ *جامعہ علیمیہ جمداشاہی*

تاریخ۔ ٩ محرم الحرام ٢٤٤١؁ھ

          29 اگست 2020 ؏


         آپ کا مبارک نام "علی بن عثمان" ، کنیت "ابوالحسن" ہے۔ "گنج بخش" اور "داتا گنج بخش" کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ سے ملتا ہے۔ آپ حسنی سید ہیں۔ 400 ہجری میں افغانستان کے غزنی شہر سے متصل ایک بستی جلاب میں پیدا ہوئے پھر آپ کے والد سید عثمان ہجویری "ہجویر"( ایک بستی کا نام ) منتقل ہوگئے۔ اسی وجہ سے کبھی آپ اپنے آپ کو جلابی اور کبھی ہجویری لکھتے ہیں۔ آپ شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمة اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے مرید ہیں ، جو تفسیر ، حدیث اور تصوف تینوں کے زبردست عالم تھے۔ آپ نے شام ، قہستان ، آذربائیجان ، ترکستان ، خراسان ، ماوراءالنہر وغیرہ کا سفر کیا۔ ان ممالک میں بہت سے صوفیاء کرام سے ملے اور ان سے فیض حاصل کیا۔ خراسان میں آپ 300 مشائخ سے ملے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ان میں سے صرف ایک سارے جہان کے لیے کافی ہے۔متعدد اساتذئہ کرام سے تعلیم حاصل کی۔ 

         آپ اپنے شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے حکم سے دین متین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے لاہور تشریف لائے۔ اس وقت ہند و پاک کا بٹوارا نہیں ہوا تھا۔ آپ سے پہلے آپ کے پیر بھائی شیخ حسین زنجانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لاہور میں اس خدمت پر مامور تھے۔ آپ نے کہا حضور وہاں تو حسین زنجانی موجود ہیں ، لیکن شیخ نے فرمایا نہیں تم جاؤ۔ فرماتے ہیں کہ میں رات کے وقت لاہور پہنچا اور صبح کو حسین زنجانی کا جنازہ مبارک شہر سے باہر لایا گیا۔تبلیغ دین کے لیے آپ نے ہند و پاک کے دوسرے خطوں کا بھی سفر کیا۔ لاہور میں ہی آپ نے کشف المحجوب تصنیف فرمائی جو کہ آپ کی تمام تصانیف میں سب سے زیادہ مشہور و مقبول کتاب ہے۔ ( اسے سب کو پڑھنا چاہیے )

              🌹 *ایک کرامت*🌹

              آپ نے لاہور میں ایک مسجد کی تعمیر کرائی اور اس کا سمتِ قبلہ مکمل پچھم کی جانب نہ کرتے ہوئے تھوڑا دکھن کی طرف مائل کر دیا۔ اس پر وہاں کے علمائے کرام نے اعتراض کیا۔ مسجد تعمیر ہو جانے کے بعد آپ نے ان سب کی کھانے پر دعوت کی۔ اور آپ نے خود نماز میں امامت فرمائی۔ اس کے بعد آپ نے کہا کہ اعتراض ہے تو آپ لوگ کچھ دیر کے لئے اپنی آنکھوں کو بند کر لیں۔پھر آپ نے ایسی توجہ فرمائی کہ تمام حجابات اٹھ گئے اور سب لوگوں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ بالکل سامنے موجود ہے ، اور مسجد کا رخ بالکل صحیح رخ پر تعمیر کیا گیا ہے۔

            ٢٠ صفر المظفر 465 ہجری کو آپ نے اس دار فانی کو الوداع کہ دیا۔ آپ کا مزار پر انوار پاکستان کے شہر لاہور میں واقع ہے۔ آپ کے مزار پرانوار پر بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالی نے چلہ کشی ، اور ہندوستان کے راجہ ہمارے خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالی عنہ جب ہندوستان تشریف لائے تو وہ پہلے لاہور رک گئے اور آپ نے بھی داتا صاحب کے مزار پاک پر چلہ کشی فرمائی۔ خواجہ غریب نواز جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو رخصت کے وقت آپ نے یہ شعر کہا۔ 

*گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا*

 *ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را رہنماں* 

اور اسی *گنج بخش* کے لقب سے آپ مشہور ہوۓ۔ یہ شعر آج بھی آپ کے مزار پر انوار کے گیٹ پر نقش ہے۔

       آپ کا مشہور قول : نفس کو اس کی خواہش سے دور رکھنا حقیقت کے دروازے کی چابی ہے۔


      اللّٰہ پاک آپ کے مزار پاک پر رحمت و نور کی بارش فرماۓ اور ان کے صدقے ہماری عاقبت کو سنوار دے۔ آمین


افادات از کشف المحجوب مصنفہ داتا گنج بخش رضی اللّٰہ تعالی عنہ ، و نفحات الانس مصنفہ علامہ عبد الرحمن جامی رضی اللّٰہ تعالی عنہ۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اغیار کی نظر میں

سہل بن عبداللہ تستری علیہ الرحمہ

قوم کے حالات