مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ


 🌹🌹 *١٤ محرم الحرام عرس پاک حضور مفتی اعظم ہند رضی اللّٰہ تبارک و تعالیٰ عنہ* 🌹🌹


💐 *حضور مفتی اعظم ہند کی حیات طیبہ کے مختلف گوشے* 💐


تحریر۔ خاک پاۓ مفتیِ اعظم ہند

*محمد شہاب الدین علیمیؔ*

متعلم۔ *جامعہ علیمیہ جمداشاہی بستی*

تاریخ۔ *١٤ محرم الحرام ٢٤٤١؁ھ*

           *03 ستمبر 2020؏*


             *بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم•*


             ٢٢ ذی الحجہ شریف ٠١٣١؁ھ مطابق 07 جولائی 1893؏ بروز جمعہ بوقت صبح صادق کا وہ مبارک سماں تھا جس روز حضور اعلیٰ حضرت رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے یہاں حضور مفتی اعظم رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ آپ کا اصلی نام محمد ہے ، اسی نام پر آپ کا عقیقہ ہوا۔غیبی نام آل الرحمن ہے۔سید المشائخ سید ابوالحسین احمد نوری نے آپ کانام ابو البرکات محی الدین جیلانی رکھا۔ عرفی نام اعلی حضرت رضی اللّٰہ تعالی عنہ نے مصطفی رضا رکھا اور اسی سے آپ مشہور ہیں۔


25 جمادی الثانی 1311ھ کو سید المشائخ ابوالحسین احمد نوری بریلی شریف تشریف لائے۔ اس وقت مفتی اعظم کی عمر شریف 6 ماہ 3 دن کی تھی۔ ابوالحسین احمد نوری نے آپ کے دہن مبارک میں میں اپنی انگشت شہادت ڈالی اور آپ شیرِ مادر کی طرح چوسنے لگے۔اس کے بعد آپ کو داخلہ سلسلہ فرمایا اور تمام سلاسل کی اجازت عطا فرمائی ، اور ارشاد فرمایا: یہ بچہ مادرزاد ولی ہے دین و ملت کی بڑی خدمت کرےگا


           آپ نے اپنے والد ماجد حضور اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ اور برادر اکبر حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان اور دیگر اساتذہ سے علم دین حاصل کیا۔ ہے 1328ھ مطابق 1910؏ میں ذوق مطالعہ، محنت اور لگن، خداداد ذہانت، اساتذہ کی شفقت،اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی توجہ کامل اور سید ابوالحسین احمد نوری علیہ الرحمة والرضوان کی عنایت سے جملہ علوم و فنون معقولات و منقولات پر عبور حاصل کرکے منظر اسلام بریلی شریف سے فراغت پائی ۔


          تمام علوم و فنون میں کامل دسترس حاصل تھی ۔جس فن میں دیکھیے آپ اس میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ چاہے وہ فن حدیث ہو یا فن اصول حدیث تفسیر ہو یا اصول تفسیر علم عقائد یا علم کلام۔

         مگر آپ کا خاص اور پسندیدہ فن فقہ تھا۔ جس طرح سے حضور اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ فقہ و فتاوی سے نہایت شغف رکھتے تھے اسی طرح مظہر اعلی حضرت حضور مفتی اعظم بھی فقہ و فتاوی سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کے فقہ و فتاوی کے عظیم کارناموں کی وجہ سے دنیا آج آپ کو مفتی اعظم کہتی ہے۔ 


      فراغت سے لےکر 1340ھ تقریباً 12 سال تک حضور اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں رہ کر جملہ علوم و فنون میں مہارت کاملہ حاصل کی۔ بطور خاص فتوی نویسی کے علم و فن میں مہارت تامہ حاصل کیا۔

          *حیات طیبہ کے مختلف گوشے*

             🌹پہلا فتوی🌹

  جب آپ فارغ التحصیل ہو گئے تو کسی دن دارالافتاء تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ فتاوی لکھنے کے سلسلے میں فتاوی رضویہ شریف کا مطالعہ کر رہے ہیں، تو آپ نے کہا: فتاوی رضویہ شریف دیکھ کے فتوی لکھتے ہیں؟ ملک العلماء نے جواب دیا: آپ بغیر دیکھے لکھ دیں۔ تو آپ نے فورا قلم اٹھایا اور مراجعتِ کتب کے بغیر ایک مدلل فتوی لکھ دیا۔ جب اعلی حضرت کی بارگاہ میں اصلاح کے لیے پیش کیا گیا تو اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: کس نے لکھا ہے؟ بتایا گیا کہ چھوٹے میاں نے۔ ( اس وقت آپ کو یہی کہا جاتا تھا ) آپ بہت خوش ہوئے۔ جب مفتی اعظم حاضر ہوئے تو دیکھا کہ والد ماجدبہت مسرور ہیں۔ والد ماجد یعنی حضور اعلی حضرت نے فرمایا اس پر دستخط بھی کر دو۔ آپ نے دستخط کر دیا۔ پھر حضور اعلی حضرت نے اس کی تصدیق وتصویب فرمائی اور ایک لفظ بھی نہ گھٹایا نہ بڑھایا ۔ اور لکھا صح الجواب بعون الملک الوہاب۔ اور اپنا دستخط کیا۔ ساتھ ہی پانچ روپے انعام عطا کیا اور ارشاد فرمایا کہ اب فتوی لکھا کرو، اور میں مہر بنوا دیتا ہوں۔ جب مہر آئی تو اس پہ لکھا تھا۔ *ابو البرکات محی الدین جیلانی آل رحمن محمد مصطفی رضا*

         عجیب اتفاق ہے کہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی پہلا فتوی رضاعت کے متعلق تھا اور مظہر اعلی حضرت حضور مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی پہلا فتوی رضاعت کے ہی متعلق تھا۔


           حدیث شریف میں ہے *أَفْضَلُ الْجِہَادِ کَلِمَةَ عَدْلٍ عِنْدَ اِمَامٍ جَائِرٍ* ( سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 4011 ، سنن نسائی حدیث نمبر 4211 ، سنن ترمذی حدیث نمبر 2174 )یعنی ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے۔ تاریخ گواہ ہے کی تمام اکابر علماء کرام نے اپنے دور کے ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنے سے گریز نہیں کیا ۔مثلا امام احمد بن حنبل کا واقعہ ہی دیکھ لیں ۔ مفتی اعظم بھی حق گو اور بےباک علماء میں سے تھے۔77۔1976 میں ایمرجنسی کا قانون حکومت کی طرف سے لگایا گیا۔

کانگریس کی حکومت تھی ۔ اندرا گاندھی وزیر اعظم تھی۔ حکومت کی طرف سے اعلان کردیا گیا دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکتے۔نس بندی کو ضروری قرار دے دیا گیا۔ اندرا گاندھی نے سختی سے اس پر عمل کروایا۔ دیوبندی علماء بکنے لگے۔ ان لوگوں نے جائز قرار دے دیا۔ سنی دینی ادارے بھی خاموش تھے۔ اس وقت عوام پریشان تھی اور سب کی نظریں بریلی شریف کی طرف مرکوز تھی ۔چنانچہ حضور مفتی اعظم رضی اللہ عنہ نے حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمة والرضوان سے فتویٰ لکھوایا کہ نسبندی حرام ہے حرام ہے حرام ہے۔ جیسے ہی یہ فتوی صادر ہوا بہت جلد پورے ہندوستان میں مشہور ہوگیا اور ملک کے کونے کونے تک پہنچ گیا۔ حکومت کا کارندہ مفتی اعظم ہند کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ آپ اپنا فتویٰ واپس لے لیجئے۔ آپ نے بلا خوف و خطر ارشاد فرمایا کہ ہم نے قرآن و حدیث کی روشنی میں فتوی دیا ہے ہم اپنا فتویٰ واپس نہیں لے سکتے وقت آیا تو حکومت ہی بدل جاۓگی۔ چنانچہ اللہ پاک کا کرنا ایسا ہوا کہ حکومت ہی بدل گئی ۔آپ کی حق گوئی و بےباکی اس واقعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی

اللّٰہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

آپ نے نسبندی حرام ہونے کی مندرجہ ذیل دلیلیں دی تھیں۔ 

1۔ نسبندی میں اللہ پاک کی پیدا کی ہوئی چیز کو بدلنا ہے جو قرآن وحدیث کی نص سے ناجائز ہے۔

2۔اس میں بلا وجہ شرعی ایک نس اور عضو کاٹا جاتا ہے۔

3۔نس بندی میں بلا ضرورت شرعی دوسرے کے سامنے ستر وہ بھی غلیظ ستر کھولا جاتا ہے۔

4۔ستر وہ بھی غلیظ ستر کو اس میں چھوا جاتا ہے۔

یہ یعنی نسبندی قاطع توالود ہونے کی وجہ سے خصی ہونے میں داخل ہے۔ اور خصی کرنا یا کرانا قرآن و حدیث کی نص سےحرام ہے۔

کثرت اولاد کو مفلسی کا باعث سمجھنا بھی وجہ منع ہے۔

( فتاوی مصطفویہ صفحہ 531) 


*عربی زبان میں مہارت تامہ*


           شارح بخاری حضرت علامہ شریف الحق احمد امجدی مفتی اعظم کی ایک علمی مجلس کا حال یوں بیان فرماتے ہیں ۔ شرح مأۃ عامل عبدالرسول کے حاشیے میں عربی کا ایک مقولہ ہے ۔ *النَّارُ فِی الشِّتَاءِ خَیْرٌ مِنَ اللّٰہِ ورسولِہٖ* جس کا ظاہری ترجمہ ہے۔گرمی میں آگ اللہ رسول سے بہتر ہے۔ اور یہ معنی صریح کفر ہے۔ حاشیہ شرح مئاۃ عامل کے مطابق من یہاں قسمیہ ہے۔ تو اب ترجمہ ہوگا کہ اللہ اور رسول کی قسم گرمی میں آگ بہتر ہے۔ مگر اس پر بھی اشکال ہے کیوںکہ اللّٰہ پاک کی قسم کھانا جائز ہے رسول پاک ﷺ کی قسم کھانا جائز نہیں ۔ علماء کے درمیان اس مسئلے میں مذاکرہ ہو رہا تھا سب نے اپنے اپنے طور پر جواب دیا پھر آخر میں مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالی عنہ سے استفسار کیا گیا تو آپ نے فرمایا:ترجب کیا ہے روز مرہ کے محاورے میں آپ سب بولتے ہیں یہ کام منجانب اللّٰہ ہوا ہے ۔اسی طرح اس جملے کو بھی سمجھ لیجئے۔ آپ کے اس ارشاد سے صاف ہوگیا کہ یہاں مِنْ قسم یا تفصیل کے لئے نہیں بلکہ ابتداء غایت کے لئے ہے اور ترجمہ یہ ہوگا کہ اللّٰہ و رسول کی جانب سے گرمی میں آگ بہتر ہے۔


*فن نے اسماء الرجال میں آپ کی مہارت*

فنی اسماء الرجال نہایت مشکل فن مانا جاتا ہے۔ مگر ہمارے مفتی اعظم اس فن میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1332 ہجری میں اشر فعلی تھانوی نے مسئلہ اذان ثانی پر ایک تحریر لکھ کر ایک مجہول شخص کے نام سے شائع کرادیا اور اس میں ایک جلیل القدر اور رفیع الشان تابعی عالم دین امام المغازی محمد بن اسحاق جو کہ امام اعظم کے ہم استاد ہیں۔ امام ابو یوسف کے استاذ اور امام محمد کے استاذ الاستاذ ہیں، ان پر جی بھر کر جرحیں کی۔کذب اور تشیع و رفض کا طعن کیا۔ عمدة المحققین حضور مفتی اعظم ہند نے نے اس کتاب کے رد میں ایک رسالہ تحریر کیا *وقایة اہل السنة عن مکر دیوبند والفتنة*

اس رسالے میں آپ نے ایسی تحقیق انیق فرمائی کہ تھانوی کی تحریریں تار عنکبوت کی طرف نظر آنے لگیں۔ پہلے آپ نے حضرت محمد بن اسحاق رضی اللہ تعالی عنہ کی خوب تعریف کی۔ اس کے بعد بڑی بڑی کتابوں سے دلائل دیے۔ اور تھانوی نے بڑی بڑی کتابوں سے جو خیانت کی تھی ان خیانتوں کا پردہ چاک کردیا اور اس کی خیانت سے لوگوں کو آگاہ فرمایا۔جن کتابوں کے ذریعہ اس نے کذاب یا متہم بالکذب ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔انہیں کتابوں سے آپ کا ثقہ اور معتمد ہونا صاف ظاہر ہوتا تھا مگر تھانوی نے خیانت کی تھی۔اور مفتی اعظم ہند نے اس کے پردے کو چاک کر دیا اور اس کے مقصد کو خاک میں ملا دیا۔


*آپ کا تقوی*

         عالم وہی ہے جو اپنے علم پر عمل کرتا ہو۔ اور علمائے کرام کی شان یہ ہے کہ وہ رخصت پر نہیں بلکہ عزیمت پر عمل کریں۔ کری۔ حضور مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کبھی بھی رخصت پر عمل نہیں کیا بلکہ آپ عزیمت پر عمل کرتے تھے۔ چنانچہ حضور محدث اعظم ہند اور آپ ایک مسجد میں تشریف فرما تھے چاۓ لایا گیا۔ تو آپ مسجد سے باہر تشریف لے گۓ اور چاۓ نوش فرمایا۔ محدث اعظم ہند نے مسجد کے اندر ہی اعتکاف چاۓ پی۔ لوگوں کے پوچھنے سے یا خود اپنی فراست کی وجہ سے محدث اعظم ہند سمجھ گۓ اور لوگوں سے فرمایا کہ میں مسجد میں جاتا ہوں تو اعتکاف کر لیتا ہوں اور اعتکاف کی نیت سے مسجد میں کھانا پینا جائز ہے اور حضور مفتی اعظم ہند نے بھی اعتکاف کی نیت کی تھی مگر وہ باہر چلے گۓ یہ ان کا ےقوی تھا۔ میں نے فتوے پر عمل کیا۔


         حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہر کام داہنی جانب سے کیا کرتے تھے یہاں تک کہ جوتا پہننے اور کنگھی کرنے میں بھی آپ داہنی جانب سے ابتدا فرماتے تھے۔ مفتی اعظم ہند رضی اللہ تعالی عنہ ایک سچے عاشق رسول اور متقی اعظم تھے۔ آپ بھی اپنا ہر کام داہنے جانب سے شروع فرماتے تھے آپ جب گاڑی میں بیٹھتے تھے تو آگے نہیں بیٹھتے تھے کیوں کہ آگے بیٹھنے میں آپ کو بائیں جانب بیٹھنا پڑتا کیوں کہ داہنی جانب تو ڈرائیور ہوتا ہے اسی وجہ سے آپ پیچھے بیٹھتے تھے اور داہنی جانب بیٹھتے تھے۔ سبحان اللہ۔


        اردو زبان میں رسم الخط داہنی جانب سے لکھا جاتا ہے مگر عموماً لوگ اعداد کو بائیں جانب سے ہی لکھتے ہیں مثلا ٧٨٦ لکھنا ہو تو پہلے ٧ پھر ٨ پھر ٦ لکھیں گے۔ مگر مفتی اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اعداد کو بھی داہنی طرف سے ہی لکھتے تھے پہلے ٦ پھر ٨ پھر ٧ کو لکھتے تھے تعویذات کے نقوش بھی داہنی جانب سے ہی لکھتے تھے۔اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کا بھی یہی معمول تھا۔


*عشق رسول*

     آپ کی ذات جس طرح سے تمام علوم و فنون میں کامل تھی اسی طرح عشق رسول میں بھی کامل تھی۔ ایک عاشق چاہتا ہے کہ محبوب کبھی نظروں سے اوجھل نہ ہو ۔ چنانچہ دعا فرماتے ہیں۔

 کچھ ایسا کردے میرے کردگار آنکھوں میں

 ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں

 انہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں

کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں

اللہ تعالی اور رسول اللّٰہ ﷺ سے آپ کو ایسی محبت تھی کی ایک جگہ فرماتے ہیں:

 خداﷻ ایک پر ہو تو ایک پر محمدﷺ

 اگر قلب اپنا دوپارہ کرو میں



آپ 14 محرم الحرام 1402 ہجری مطابق 11 نومبر 1981؏ کو تمام عالم کو داغ مفارقت دے گئے۔ چاروں طرف مایوسی چھا گئی۔

حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے وصال کے بعد آپ کی شان میں کیا خوبصورت منقبت تحریر فرمائی۔ 

زینتِ سجادہ و بزمِ قضا ملتا نہیں

 لعلِ یکتاۓ شہِ احمد رضا ملتا نہیں

 وہ جو اپنے دور کا صدیق تھا ملتا نہیں 

محرمِ رازِ محمد مصطفی ملتا نہیں ﷺ

عالموں کا معتبر وہ پیشوا ملتا نہیں

 جو مجسم علم تھا وہ کیا ہوا ملتا نہیں

 زاہدوں کا وہ مسلم مقتدا ملتا نہیں

 جس پہ نازاں زہد تھا وہ پارسا ملتا نہیں

استقامت کا وہ کوہِ محکم و بالاتریں

 جس کے جانے سے زمانہ ہل گیا ملتا نہیں 

ایک شاخِ گل نہیں سارا چمن اندوہگیں

 مصطفی کا عندلیبِ خوش نوا ملتا نہیں

 *مفتی اعظم* کا ذرہ کیا بنا *اخترؔ* رضا 

محفل انجم میں اختر دوسرا ملتا نہیں


         اللّٰہ پاک حضور مفتی اعظم ہند رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے مزار پر انوار پر رحمت نور کی خوب بارش فرماۓ اور ہمیں ان کی سچی اطاعت و پیروی کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ اور ان کے صدقے ہماری دنیا و آخرت کو سنوار دے۔ آمین



         افادات از جہان مفتی اعظم ، سوانح مفتی اعظم ہند ، اور فن اسماء الرجال میں مفتی اعظم کی مہارت ۔


فقط والسلام علیکم ورحمة اللہ تعالی وبرکاتہ


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اغیار کی نظر میں

سہل بن عبداللہ تستری علیہ الرحمہ

قوم کے حالات