وقت کی اہمیت و افادیت
قسط دوم
وقت کی اہمیت و افادیت
تحریر۔ *گداۓ اعلیٰ حضرت رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ*
*محمد شہاب الدین علیمیؔ*
متعلم۔ *جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی*
تاریخ۔ *٢٦ محرم الحرام ٢٤٤١ھ*
مطابق *15 ستمبر 2020؏*
*بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ•*
*اَلْوَقْتُ کَاسَّیْفِ اِنْ لَمْ تَقْطَعْهٗ لَقَطَعَکَ*
وقت ایک تلوار کی طرح ہے ، اگر تم اس کو نہیں کاٹوگے تو وہ تمہیں ضرور کاٹ دےگی۔
یقینا وقت ایک عظیم سرمایہ ہے۔ وقت کے سامنے دولت و ثروت کی کوئی اہمیت نہیں ، اس لیے کہ اگر وقت نہ ہو تو دولت و ثروت کس کام کی۔وقت کی اہمیت کا احساس تو اس وقت ہوتا ہے جب ایک منٹ پہلے ٹرین اسٹیشن سے چھوٹ چکی ہوتی ہے اور ہم کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں کہ کاش ایک منٹ پہلے میں اسٹیشن پہنچ جاتا۔
دوڑ کے مقابلے میں جب محض ایک سکنڈ سے کوئی اول پوزیشن حاصل کرنے سے چوک جاتا ہے تب اس کو سمجھ میں آتا ہے کہ وقت کتنا اہم ہے۔حاصل یہ ہے کہ ہمیں وقت کی اہمیت کا اندازہ وقت نکل جانے کے بعد ہوتا ہے اور ہم حیف صد حیف کرتے رہ جاتے ہیں ، لیکن اس وقت کے افسوس سے کوئی فائدہ نہیں ملتا۔عقلمند انسان کی یہ علامت ہوتی ہے کہ وہ وقت سے پہلے ہی اپنی تیاری مکمل کر لیتا ہے۔
آپ اللّٰہ تبارک و تعالی کے نظام شمسی پر غور کریں اگر سورج گردش کرنے میں عجلت یا تاخیر کرے تو دنیا کا نظام بھی درہم برہم ہو جاۓگا۔ اگر آسمان کے سیارے اپنے متعینہ وقت سے گردش نہ کرے تو ایک دوسرے سے ٹکرا جائین گے اور دنیا تباہ ہو سکتی ہے۔ نماز تو پڑھی جاۓ مگر وقت نکلنے کے بعد پڑھی جاۓ تو آخرت میں سختی کے ساتھ بازپرس کی جاۓگی
کیونکہ وہ اپنے وقت پر ادا نہیں کی گئی۔قرآن مقدس میں ہے۔
*اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً•* نماز مومنین پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔
ہمارے اکابرین جو تاریخ کی زینت بنے ہوۓ ہیں وجہ کیا ہے کہ ان کا نام آج تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے؟ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وقت کی قدر کی ۔ اس وقت انہوں نے وقت کو صحیح طریقے سے استعمال کیا تو آج وہ چمک رہے ہیں دنیا یاد کر رہی ہے۔
بزرگوں کے حفظ اوقات کی چند مثالیں تحریر کرتا ہوں غور سے پڑھیں۔
1۔ امام رازی رحمة اللّٰہ تعالی علیہ کے نزدیک وقت کی اس قدر اہمیت تھی کہ ان کو اس بات کا افسوس ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت کیوں علمی مشاغل سے کھالی ہوتا ہے چنانچہ فرمایا کرتے تھے
_*َۚوَاللِّٰہِ إِنِّیْ لَأَتَأَسَّفُ فِیْ الْفَوَاتِ عَنِ الْإِشْتِغَالِ بِالْعِلْمِ فِیْ وَقْتِ الْأَکْلِ فَإِنَّ الْوَقْتَ وَالزَّمَانَ عَزُیْزٌ*_
یعنی اللّٰہ پاک کی قسم مجھ کو کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے کیوں کہ وقت متاع عزیز ہے۔
وقت کی قدردانی نے ان کو منطق و فلسفہ کا ایسا زبردست امام بنا دیا کہ دنیا نے ان کی امامت تسلیم کی۔
2۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمة اللّٰہ تعالی علیہ وقت کے بڑے قدر دان تھے۔کسی وقت خالی نہ بیٹھتے تھے۔تین مشغلوں میں سے کسی نہ کسی میں ضرور مصروف رہتے۔مطالعۂ کتب ، تصنیف و تالیف یا عبادت۔جب تصنیف و تالیف کے کام میں ہوتے اور درمیان میں قلم کی نوک خراب ہو جاتی تو اس کو درست کرنے کے لیےایک دو منٹ کا جو وقفہ لگتا اس کو بھی ضائع نہ کرتے ، ذکر الہی زبان پر جاری رہتا اور نوک درست کرتے اور فرماتے کہ وقت کا اتنا حصہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
3۔ امام شافعی رحمة اللّٰہ تعالی علیہ فرماتے تھے۔
_*صَحِبْتُ الصُّوْفِیَّةَ فَلَمْ اَسْتَفِدْ مِنْھُمْ سِوٰی حَرْفَیْنِ اَحَدُھُمَا اَلْوَقْتُ سَیْفٌ قَاطِعٌ فَإِنْ لَمْ تَقْطَعْهٗ قَطَعَکَ وَ ثَانِیْھِمَا نَفْسُکَ إِنْ لَمْ تَشْغَلْھَا بِالْحَقِّ شَغَلَتْکَ بِالْبِاطِلِ*_
یعنی میں نے صوفیاء کرام کی صحبت اختیار کی اور ان سے دو باتیں حاصل کی یعنی ( ان دونوں نے مجھے بہت نفع دیا )
پہلی بات ۔ وقت کاٹنے والی تلوار ہے اگر تم اس کو نہیں کاٹوگے تو وہ تمہیں کاٹ دے گی
دوسری بات۔ اپنے نفس کو بھلائی کے کام میں مشغول کر دو ورنہ وہ تمہیں برائی کے کام میں مشغول کر دےگا۔
ہمارے بزرگان دین اس طرح سے وقت کی قدر کیا کرتے تھے۔ اس کی اہمیت کو سمجھتے تھے ۔ آخرت کی فکر کرکے وقت کو صحیح ڈھنگ سے استعمال کیا اور دین و سنیت کے لیے عظیم عظیم کارہاۓ نمایاں انجام دۓ اسی وجہ سے آج دنیا ان کو یاد کرتی ہے۔ جس طرح چکی چلتی ہے ایسے ہی ہمیشہ زندگی کی چکی چل رہی ہے۔چکی میں اگر کچھ ڈال دیا جاۓ تو وہ پِس جاۓگا ورنہ چکی خالی خالی چلتی رہےگی
اسی طرح زندگی کی چکی میں بھی اگر نیکیاں ، بھلائیاں ، روزے نماز وغیرہ اچھا کام کو ڈال دیا جاۓ تو وہ کام آےگا ورنہ زندگی بھی خالی خالی چلتی رہےگی اور ایک دن پیام اجل آ جاۓگا اور موت ہمیں جھپٹ لے گی۔
امام اہل سنت اعلی حضرت رضی اللّٰہ تبارک و تعالی عنہ وقت کی قلت اور آخرت کے خطرات سے ہمیں خبردار کرتے ہوۓ فرماتے ہیں۔
اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے
دلِ بےکس کا اِس آفت میں آ قا تو ہی والی ہے
اترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہو سکے کر لے
اندھیرا پاکھ آتا ہے یہ دو دن کی اُجالی ہے
ارے یہ بھیڑیوں کا بن ( جنگل ) ہے اور شام آ گئی سر پر
کہاں سویا مسافر ہائے کتنا لا ابالی ہے
اندھیرا گھر ، اکیلی جان ، دم گُھٹتا ، دل اُکتاتا
خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے
زمیں تپتی ، کٹیلی راه ، بھاری بوجھ ، گھائل پاؤں
مصیبت جھیلنے والے ترا الله والی ہے
نہ چونکا دن ہے ڈھلنے پر تری منزل ہوئی کھوٹی
ارے او جانے والے نیند یہ کب کی نکالی ہے
رضا منزل تو جیسی ہے وہ اک میں کیا سبھی کو ہے
تم اس کو روتے ہو یہ تو کہو یاں ہاتھ خالی ہے
اللّٰہ پاک ہمیں فکر آخرت کی توفیق عطا فرماۓ۔ اور آخرت کی منزلوں کو آسان بنانے کے لیے زندگی کے جو اوقات ہمیں دئے گۓ ہیں ان کو اچھے کاموں میں صرف کرنے کی توفیق مرحمت فرماۓ۔
آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔
ختم شد۔
تبصرے