دل مشتاق کی خواہش
'
نتیجۂ فکر : *محمد شہاب الدین علیمی 'شہاب'*
*دلِ مشتاق کی خواہش ہوئی ، ہو خامہ فرسائی*
*قلم کی نوک نے بھی ساتھ میرے کی طرفداری*
*سو میں نے فکر کو سرکار اقدس کی طرف موڑا*
*انہیں کی بات سے ہوگی فروتر پہ ضیاباری*
*تبسم ریزیِ جانِ جہاں سے ہے بہارِ گُل*
*میرے آقا کے صدقے ہے چمن کی جاں میں بیداری*
*شفیعِ روزِ محشر جب وہاں سجدہ کناں ہوں گے*
*تو کچھ نقصان نہ دےگی کمینے کی سیہ کاری*
*نرالی شان سے عالم کو بخشا نور آقا نے*
*ہویے ظلمت کے دن کالے ، ہواؤں میں سبکساری*
*جو رشک مہر کے جلوے مرے دل میں سما جائیں*
*تو فورا دور ہو جائےگی میرے دل کی اندھیاری*
*کبھی وہ جلوہ فرمائیں ، دلِ مضطر سکوں پائے*
*شہابِ خستہ دل کی ختم ہو جایے عَزاداری*
٢٣ شعبان المعظم ١٤٤٤ھ
١٦ مارچ ٢٠٢٣ء
تبصرے