حضرت سیدنا معروف کرخی : ایک تعارف

 حضرت سیدنا معروف کرخی : ایک تعارف


✍️ محمد شہاب الدین علیمیؔ


 ٢ محرم الحرام ١٤٤٥ھ

 ٢٢ جولائی ٢٠٢٣ء


تمہید :

عرب کا ریگستان ہے ۔ گرمی اپنے جوبن پر ہے ۔ سورج کی تپش سے فضا بھی پریشان ہے ۔ ریت کے ذرّات ایسے دہک رہے ہیں جیسے آگ کے انگارے ۔ اسی شدت کی گرمی میں ایک غمزَدہ اور ستم رسیدہ شخص کو آگ کی طرح دہکتے ہوئے ذروں پر برہنہ لٹا دیا گیا ہے ۔ ایک گرم پتھر بھی اس کے سینے پر رکھ دیا گیا ہے ۔ تکلیف کی شدت سے آنکھیں ابل رہی ہیں ۔ گرمی کی تپش کی وجہ سے حبشی باشندے کی رنگت مزید گہری ہو گئی ہے ۔ کمر کی کھال ادھڑ کر خون رسنے لگا ہے ۔ دُرّے مار مار کر آقا بھی نیم بے ہوش ہونے کو ہے ۔ یہ تمام تکالیف صرف اس لیے دی جا رہی ہیں کہ وہ شخص کفر کی ظلمت سے نکل کر اسلام کی روشنی میں پناہ حاصل کر چکا ہے ۔ شرک کی غلاظت کو چھوڑ کر اسلامی طہارت حاصل کر لیا ہے۔ اسے اسلام سے منحرف کرنے کی بےسود سعی کی جا رہی ہے ‌۔ اس کے ایمان کو چھیننے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے ۔ مگر وہ دیوانہ ایسا ہے کہ مصلحت کے تمام سبق فراموش کرکے ایک ہی کلمہ "احد احد” دہراتا جا رہا ہے ۔ ایسا مستانہ ہے کہ اس درد میں بھی اس کو مزہ حاصل ہو رہا ہے ۔ ظالم آقا کا ظلم اس شخص کے پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی لغزش نہیں دے پا رہا ہے ۔ اتنی تکلیفیں پاکر بھی اس کے ایمان میں تھوڑا بھی تزلزل نہیں آ رہا ہے ۔ ظلم سہتے سہتے ایک عرصہ ہو چکا ہے مگر "احد احد” کا نعرہ بدستور زبان پر جاری ہے ۔ آخر کار اللّٰہ تعالی کے پیارے ، حضور ﷺ کے دلارے ، امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے پہلے مرد مومن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس شخص کو خرید کر ظالم کے ظلم سے آزاد کر دیا۔ اتنا ظلم سہنے کے باوجود اسلام کو نہ چھوڑنے والے اس دیوانے کو دنیا آج بلال حبشی کے نام سے جانتی ہے۔


      

اس واقعے کو تقریبا ڈیڑھ صدی ہو چکے ہیں ۔ دوسری صدی کا دور چل رہا ہے۔ اس صدی میں دین اسلام دور دور تک پہنچ چکا ہے ۔ اطراف عرب اللہ تعالی کے صاحب اسرار بندوں کی جبینِ نیاز سے شاد و آباد ہے ۔ اسلام کی روشنی تاریک دلوں کو منور کرتی چلی جا رہی ہے ۔ لوگ جوق در جوق اسلام کے دامن کرم سے وابستہ ہو رہے ہیں ۔ ایسے میں عراق کے شہر بغداد میں کرخ نامی علاقہ کے ایک عیسائی خاندان میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ پورے گھر میں خوب خوشیاں منائی گئیں۔ عیسائی مذہب کے مطابق اسے بپتسمہ ( ایک عیسائی رسم جس میں نومولود بچے کو غسل دے کر مذہب مسیحیت میں داخل کیا جاتا ہے ) دیا گیا ۔ مگر اس بچے کی روح سعید بہت مضطرب تھی۔ بچپن میں ہی بیچینی چہرے سے عیاں تھی ۔ لڑکا تھوڑا بڑا ہوا تو والدین کو اس کی تعلیم و تربیت کی فکر لاحق ہوئی ۔ ایک عیسائی عالم کو اس کام کے لیے مقرر کر دیا گیا ۔ اس لڑکے کے ساتھ اس کا ایک بھائی ( جس کا نام عیسی تھا ) بھی اس کے ساتھ زیر تعلیم ہے ۔ جو بچپن کے حالات کو یوں بیان کرتا ہے۔


عیسائی معلم ہمیں عیسائیت کا درس دیتا مگر میرے بھائی کو اللہ تعالی نے عقیدئہ توحید کے لیے پہلے ہی چن لیا تھا۔ عیسائی معلم ہمیں عقیدۂ تثلیث کی تعلیم دیتا ۔ باپ بیٹے کے عقیدے کا سبق پڑھاتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے ہیں اور کہتا کہ کہو ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ ۔ مگر بھائی ”احد احد” کہتے ۔ ( ڈیڑھ صدی کے بعد سنت بلالی کو زندہ کر رہے تھے سبحان اللہ العظیم ) جس پر عیسائی عالم انہیں بہت مارتا۔ ایک دن اس نے کچھ زیادہ ہی مار دیا جس کی وجہ سے وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ بہت ڈھونڈا گیا مگر وہ نہ ملے۔ والدہ کو بہت تکلیف ہوئی ۔ بہت روئیں ، اور کہا : اگر ہمارا بیٹا ہمیں مل گیا تو جس دین پر وہ ہو گا ہم اس دین کو قبول کر لیں گے ۔


ادھر بھائی حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالی عنہ ( حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ساتویں پشت میں آتے ہیں ) کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہو گئے اور ان سے ظاہری و باطنی فیض حاصل کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد گھر تشریف لائے تو ماں نے پوچھا : کس دین پر ہو؟ بھائی نے جواب دیا : دین اسلام پر۔ چنانچہ اسی وقت پورا گھر مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ ( مناقب معروف الکرخی و أخبارہ للجوزی ص ٥٣ ، تذکرۃ الاولیاء ص ١٧٤ )


بچپنے کے عالم میں ہی اپنے پورے گھر والوں کو دامن اسلام سے مربوط کرنے والا وہ سعادت مند بچہ جانتے ہیں کون تھا؟ وہ تھے امام الاولیاء سید الاتقیاء حضرت سیدنا معروف کرخی رضی اللہ تبارک و تعالی عنہ۔


نام و ولادت :

آپ کا نام معروف ہے ۔ آپ کی کنیت ابو محفوظ ہے۔١٢٠ھ میں عراق کے شہر بغداد کے "کرخ” نامی علاقے آپ کی ولادت ہوئی ۔ کرخ کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپ کو "کرخی” کہا جاتا ہے ۔ ‘معروف کرخی’ سے آپ کو شہرت ملی۔ والد کا نام پہلے فیروز تھا ۔ کچھ لوگوں نے فیروزان بھی بتایا ہے ۔ مگر اسلام لانے کے بعد آپ کا نام علی رکھا گیا۔ تاریخ بغداد ج ١٣ )


تعلیم و تربیت :

آپ نے حضرت امام علی رضا رضی اللّٰهُ تعالی عنہ کی صحبت کو لازم پکڑا ۔ انہیں سے علم شریعت حاصل کرنے کے بعد علم طریقت اور معرفت و حقیقت کا علم بھی حاصل کیا اور انہیں کی نظر کرم کی بدولت آپ کمالات ظاہری و باطنی سے بہرہ ور ہوئے۔ امام علی رضا کے علاوہ آپ نے داؤد طائی ، حبیب عجمی اور ابو نعیم اصفہانی سے بھی اخذ فیض کیا ۔ ان حضرات کی تعلیم و تربیت نے آپ کو اخلاق و کردار کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔ ابو نعیم اصفہانی کہتے ہیں کہ آپ کو بہت سارے علوم حفظ تھے لیکن روایات احادیث نہیں کرتے تھے ۔ ( مناقب معروف الکرخی و أخبارہ للجوزی ص ٨٩)


علوم و معارف کے چشمے حاصل کرنے کے بعد ایک عالم کو آپ نے اپنے علم و فضل کے دریا سے سیراب کیا ۔ اکابرین علماء اور زاہدوں کی ایک جماعت کسب فیض کے لیے آپ کو گھیرے رہتی تھی ۔ ان میں حضرت امام احمد بن حنبل ، حضرت بشر حافی حضرت یحییٰ بن مَعین علیھم الرحمہ جیسے حضرات ہیں ۔( تاریخ بغداد ج ١٣ ص ٢٠١)


ذکر و فکر : 


        آپ مقتدائے عارفین و پیشوائے اصحاب حقیقت تھے ۔ اللہ تعالی کے بہت عظیم ولی تھے۔ تصوف کے اعلی منزل پر فائز تھے ۔آپ پر کثرت نوافل سے زیادہ ذکر کا غلبہ رہتا تھا۔ ذکر الہی میں ہی زیادہ مشغول رہتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حجام سے خط بنوا رہے تھے اور اسی درمیان ذکر میں بھی مشغول تھے۔ حجام نے کہا کہ رک جائیں ورنہ خط نہیں بن پائے گا ۔ تو آپ نے جواب دیا کہ تم تو اپنا کام کر رہے ہو اور میں اپنا کام نہ کرو؟ (مناقب معروف الکرخی و أخبارہ للجوزی )


اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت سیدنا معروف کرخی کس قدر ذکر میں مشغول رہا کرتے تھے۔


استغناء و توکل :


        اولیاء کرام اللہ تعالیٰ پر ہی توکل رکھتے ہیں ۔ مخلوق پر بالکل بھروسہ نہیں رکھتے ۔ اور تصوف بھی یہی ہے کہ مخلوق سے کنارہ کش ہو کر صرف خدا پر ہی توکل کیا جائے ۔ حضرت معروف کرخی توکل کے اعلی درجہ پر متمکن تھے ۔ آپ کو ذات باری تعالی پر اس حد تک اعتماد و یقین تھا کہ رہنے سہنے ، کھانے پینے اور دوسرے دھندھوں سے دور ہی رہتے تھے۔ آپ کو دنیاوی چیزوں کا خیال تک نہیں آتا تھا۔ اس سلسلے میں اہتمام و ا‌نصرام کرنے والوں کو بہت ناپسند فرماتے تھے۔ امام غزالی علیہ الرحمہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آپ نے کسی امام صاحب کے پیچھے نماز ادا کی ۔ فراغت نماز کے بعد امام صاحب نے آپ سے پوچھ لیا کہ کیا کام کرتے ہیں ؟ کہاں سے کھاتے ہیں ؟ یہ سن حضرت معروف کرخی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ذرا ٹھہریے ۔ میں نماز دوبارہ پڑھ لوں ۔ امام صاحب نے پوچھا : ابھی تو آپ نے نماز ادا کی ہے ؟ حضرت نے جواب دیا کہ جو شخص رزق میں شک کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے میں شک کرتا ہے ۔ اور جو اللہ جل جلالہٗ کے رازق ہونے میں شک کرے اس کے پیچھے نماز درست نہیں ہے ۔ پھر آپ نے دوبارہ نماز ادا کی اور اپنی راہ لی ۔

( نوائے صوفیہ ص ١٠ )


اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت حقیقت و معرفت کے کس مرتبہ پر تھے ۔ شریعت میں ایسے شخص کے پیچھے نماز بلا کراہت جائز ہے لیکن تصوف میں نماز درست نہیں کیوں کہ توکل تصوف کا عظیم رکن ہے ، بے اس کے صوفی کی نماز صحیح نہیں ۔


اَمارت کیا شِکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل

نہ زورِ حیدری تجھ میں نہ استغناءِ سلمانی


اخلاق و کردار :


         اولیائے کرام کی زندگیاں رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی زندگی کا آئینہ دار ہوا کرتی ہیں۔ طائف میں حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو کتنی اذیتیں دی گئیں۔ قدمِ مبارک پر اتنے پتھر مارے گئے کہ جوتے میں خون جم گیا ۔ مگر آپ نے ان لوگوں کے لئے بددعا نہیں کی بلکہ ان کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی ، اور کہا کہ اے اللہ پاک! میری قوم مجھے نہیں پہچانتی ہے انہیں ہدایت عطا فرما۔ سیدنا معروف کرخی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی سنت رسول ﷺ کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔ آپ نے کبھی کسی کو بددعا نہیں دی بلکہ زبان سے دعا کے کلمات ہی نکالا کرتے تھے ۔ اس کی ایک جھلک اس واقعہ میں دیکھیں ۔


نوجوانوں کی ایک جماعت لہو لعب اور رقص و سرود میں مشغول تھی۔ لوگوں نے آپ سے کہا کہ حضرت ان لوگوں کے لیے بد دعا فرما دیں۔ حضرت معروف کرخی رضی اللّٰهُ تعالی عنہ نے اپنوں ہاتھوں کو بلند کیا ۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ بد دعا کے کلمات ادا ہوں گے ، لیکن حضرت نے بد دعا نہیں فرمائی بلکہ اللہ پاک سے دعا کی کہ اللہ پاک جس طرح تو نے ان نوجوانوں کو دنیا میں خوش رکھا ہے ایسے ہی آخرت میں بھی انہیں شادمانی عطا فرما۔ لوگ حیران ہوگئے کہ ہم نے تو بد دعا کے لئے کہا تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ تھوڑا توقّف کرو پھر دیکھو۔ تھوڑی دیر کے بعد ان نوجوانوں نے لہو و لعب کا سارا ساز و سامان توڑ دیا اور حضرت کے پاس آکر ان کے دست مبارک پر توبہ کی۔ ( تذکرۃ الاولیاء ص ١٧٥ )


آپ کی شان بہت بلند و بالا ہے۔ آپ سردار اولیاء حضور غوث الثقلین سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کے شیخوں کے شیخ ہے۔ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالی عنہ کو کون نہیں جانتا؟ ان کے شیخ حضرت سری سقطی سے کون واقف نہیں؟ حضرت سیدنا ابو محفوظ معروف کرخی حضرت سری سقطی کے شیخ ہیں۔ سری سقطی فرماتے ہیں جو نورِ عرفان مجھے حاصل ہوا ہے وہ حضرت معروف کرخی کے صدقے میں حاصل ہوا ہے۔ حضرت سری سقطی فرماتے ہیں کہ حضرت نے مجھ سے فرمایا : اگر تمہیں کسی چیز کی طلب ہو تو اللہ پاک سے یوں دعا کرنا : اے اللہ پاک بحقِّ معروف کرخی فلاں شے مجھے عطا کر دے تو وہ چیز تمہیں مل جائے گی۔ ( تذکرۃ الاولیاء ص ١٧٦ )


علماء و ائمہ کرام کی آراء :


شیخ فریدالدین عطار علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : "حضرت معروف کرخی مقتدائے طریقت و پیشوائے حقیقت تھے” ( تذکرۃ الاولیاء ص ١٧٤ )


امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : "معروف الکرخی من الأبدال وھو مجاب الدعوات” ( تاریخ بغداد ج ١٣ ص ١٩٩ ) یعنی حضرت معروف کرخی ابدال میں سے ہیں اور مستجاب الدعوات ہیں۔


حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : "حضرت شیخ معروف کرخی علیہ الرحمہ قدماءِ مشائخ میں سے ہیں ۔ حلیمی طبع اور خلوص اطاعت میں مشہور ہیں ۔” ( کشف المحجوب ص ١٩٠ )

علامه يافعی لکھتے ہیں : ” الولی الکبیر العارف بالله الشهير و مظهر الكرامات العلية والأحوال السنية” ( مرآۃ الجنان ) یعنی حضرت شیخ معروف کرخی عظیم ولی کامل ، مشہور عارف باللہ ہیں ۔ بڑی بڑی کرامات و بلند احوال کے مالک ہیں ۔


اقوال :


١. بغیر عمل جنت کی آرزو گناہ ہے۔ بغیر ادائے سنت امیدِ شفاعت رکھنا محض دھوکہ ہے ۔ بغیر فرمانبرداری کے امیدوارِ رحمت ہونا محض جہالت و حماقت ہے


٢. دولت کے بھوکے کو کبھی حقیقی راحت نہیں مل سکتی ۔


٣. ایسی گفتگو کرنا جس سے کوئی فائدہ نہ ہو ، علامت ضلالت و گمراہی ہے ۔


٤. جس طرح تو برائی سننے کو ناپسند کرتا ہے اسی طرح اپنے آپ کو مدح سرائی سے بھی بچا ۔


٥. حق تعالی جب کسی بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو حسنِ عمل کا دروازہ اس پر کھول دیتا ہے ۔


٦. شرکِ ظاہر بتوں کی پرستش کرنا ہے اور شرک باطن مخلوق پر بھروسہ کرنا ہے ۔


٧. امیروں کی صحبت کے نقصانات احاطۂ تحریر سے باہر ہیں بچو!بچو!


٨. کسی بزرگ سے کسی گناہ کا سرزد ہو جانا اس گناہ کو مباح نہیں کر دیگا۔


٩. اصل علم تو حق تعالیٰ کا ڈر ہے ۔


١٠. جس کے عمل اچھے ہوتے ہیں اس کے دل میں حکمت نازل ہوتی ہے۔


وصال :


آپ کا وصال 2 محرم الحرام ٢٠٠ ھجری میں ہوا۔ آپ کا مزار پرانوار بغداد معلّٰی میں ہے۔(تاريخ بغداد ج١٣)

جنازے میں تقریبا تین لاکھ لوگ شامل تھے۔ اکابر علماء کرام نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ سیدنا معروف کرخی رضی اللہ تعالی عنہ کے مزار پاک پر دعائیں فورا قبول ہو جاتی ہیں۔ کسی نے وصال کے بعد اپنے بھائی کو خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ تیرا کیا حال ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ مجھے سیدنا معروف کرخی رضی اللہ تعالی عنہ کے قریب دفن کیا گیا جس کی وجہ سے میری مغفرت فرما دی گئی ، اور ان کی قبر مبارک کے دائیں بائیں آگے اور پیچھے 30-30 ہزار عذاب میں مبتلا لوگوں کو بخش دیا گیا۔ یہ ہوتے ہیں اللہ والے جو دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔


بہرِ معروف و سری معروف دے بے خودسری

جندِ حق میں گن جنیدِ باصفا کے واسطے


اللہ پاک ان کی مرقد پاک پر رحمت و نور کی بارش فرماۓ اور ان کے صدقے ہماری دنیا و آخرت کو سنوار دے۔آمین یا رب العالمین بجاہ سید المحبوبینﷺ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اغیار کی نظر میں

سہل بن عبداللہ تستری علیہ الرحمہ

قوم کے حالات