قائدین تحریک آزادی
بسم اللّٰه الرحمن الرحیم
قائدینِ تحریکِ آزادی
محمد شہاب الدین علیمی ✍️
دنیا میں وہی قومیں اور نسلیں عزت و وقار کے ساتھ زندہ رہتی ہیں ، جو اپنی تاریخ کو اپنے لئے سرمایۂ افتخار سمجھتی ہیں ۔ جس قوم نے اپنی تاریخ کو اپنے سینے سے لگا لیا وہی قوم آج سرفراز و سربلند ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی قوم کو اس دنیا سے معدوم کرنا ہو تو اس کے لئے تلوار کی ضرورت نہیں ہے ؛ بلکہ صرف اس کی تاریخ کو مٹا دو ، ایک صدی بھی نہیں گزرے گی کہ وہ قوم نیست و نابود ہو جاۓگی ۔ کیوں کہ
اپنی تاریخ کو جو قوم بھلا دیتی ہے
صفحۂ دہر سے وہ خود کو مٹا دیتی ہے
انگریز ہندوستان میں تجارت کی غرض سے آئے اور بعد میں انہوں نے اپنی دھاک جمالی اور ہندوستانی راجاؤں کو آپس میں لڑا کر اپنے آپ کو خوب طاقتور بنا لیا اور بہت سارا سرمایہ اکٹھا کر لیا۔ جب انگریزوں کی قوت بڑھ گئی ، تو وہ ہندوستانیوں پر ظلم کرنے لگے ۔ ان کے جور و جفا سے سارے ہندوستانی پریشان ہوگئے ۔ پھر سب لوگ شانہ بشانہ انگریزوں کے مقابلے میں آئے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلم اور ہندو دونوں قوموں نے بہادری کا کام انجام دیا ، مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ انگریزوں سے لڑائی ، جنگ و جدال اور قتل و خوں ریزی کی ابتدا کا سہرا مسلمانوں کے سر سجتا ہے ۔ یہی ہر مورچہ پر پیش پیش رہے اور ہر مقام پر انہوں نے ہی قیادت کا فریضہ انجام دیا ۔ ایک کتاب جس کا نام میری ہندوستانی بغاوت ہے اس کا مصنف Russell لکھتا ہے ۔ "واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا طبقہ ہی ہماری خاص مشکلات کا باعث ہے۔"
انقلاب 1857ء ہندوستان کی ایک عظیم تاریخ ہے ۔ 1857ء میں علمائے اہلسنت نے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کا خیال کئے بغیر انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی صادر فرمایا ۔ ان میں خاص طور سے قائد تحریک آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی ، مفتی صدر الدین آزردہ ، مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی ، سید کفایت علی کافی اور مفتی رضا علی خان بریلوی رحمھم الله تعالی قابل ذکر ہیں ۔
سب سے پہلے قائد تحریک آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی نے جہاد کا فتویٰ دیا ، اس کی وجہ سے ان کو کالے پانی کی سزا سنائی گئی ، وہاں کی مصیبتیں ناقابل بیان ہیں ۔ اسی مقام پر آپ کا انتقال پرملال ہوا ۔
مخزن علم و حکمت مفتی صدرالدین آزردہ کو 1857ء میں انگریزی فوج کے ہنگامۂ فساد میں سخت صدمہ اٹھانا پڑا ۔ آپ کی تمام جائیداد ضبط کر لی گئی ۔ فتوی جہاد کے الزام میں چند ماہ تک آپ کو جیل میں بھی رہنا پڑا ۔
شہید ملت سید کفایت علی کافی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی جہادی سرگرمی اور بےپناہ جذبۂ حریت سے سرشار ہوکر مرادآباد اور قرب و جوار میں انگریزوں کا جینا حرام کر دیا تھا ۔ انگریزوں سے معرکہ آرائی میں آپ پیش پیش تھے ۔ 22 رمضان المبارک 1247ھ کو آپ کو پھانسی دی گئی اور یہ شعر پڑھتے ہوۓ شہید ہو گئے ۔
کوئی گل باقی رہےگا نہ چمن رہ جاۓگا
پر رسول اللّٰه کا دینِ حَسن رہ جاۓگا
1857ء کے تحریک انقلاب کے دوران انگریزوں کو یقین ہو چلا تھا کہ اس میں مسلمان ہی پیش پیش ہیں ، اس لیے سب سے زیادہ مظالم کا شکار مسلمانوں کو بنایا گیا اور ان میں بھی خاص کر علماء کرام تھے ، جنہوں نے قائدانہ کردار ادا کیا تھا اور انگریزوں کا جینا حرام کردیا تھا ، انہیں پر سب سے زیادہ ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے گئے ۔
ایک انگریزی افسر Henry Cotton کا بیان ہے : "دہلی دروازے سے پیشاور تک گرانڈ ٹرنک روڈ کے دونوں جانب شاید ہی کوئی ایسا درخت ہو جس پر انقلاب 1857ء کے ردعمل اور اسے کچلنے کے لیے ہم نے ایک یا دو عالم دین کو پھانسی پر نہ لٹکایا ہو۔" مگر اتنے شدید مظالم کے باوجود ہمارے علمائے کرام کے قدم نہ ڈگمگائے کیونکہ ان کے دلوں میں وطن کی محبت تھی ۔ آخر کار علمائے کرام کی قربانیوں کی بدولت 15 اگست 1947ء کو ہمارا ملک ہندوستان انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا۔
عزت سے ہم بھی جینے کے حقدار ہیں یہاں
شامل ہمارا خون بھی قربانیوں میں ہے
اللہ تعالیٰ اس ملک کو شاد و آباد رکھے بالخصوص مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ۔
تبصرے