اعتراض حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر اور اس کا تحقیقی جواب


 *17 رمضان المبارک : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (Hazrat Aayesha Siddiqua ) کی وفات کی تاریخ ہے، اور تاریخ جنگ بدر بھی۔ آپ سے گزارش ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ اور بدری صحابہ کرام کے لیے ایصالِ ثواب کا اہتمام کر، ان کی بارگاہ میں خراجِ عقیدت پیش کریں!*


یومِ وصال سیدہ عائشہ صدیقہ کی مناسبت سے حضرت عائشہ صدیقہ پر درج ذیل، علمی،تحقیقی اور معلوماتی مضمون ملاحظہ فرمائیں اور اسے آگے بھی بڑھائیں! 


*ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنها سے آپ ﷺ کے نکاح کو لے کر کیے گئے اعتراضات کا محققانہ مدلل جواب*


نوٹ: آپ اس قیمتی مضمون کا ہندی/ انگریزی و دیگر علاقائی زبانوں میں ترجمہ کر کے اپنے غیر مسلم دوستوں اور اردو سے نا واقف مسلم دوستوں کو بھی شیئر کرسکتے ہیں..


*کیا ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح حضرت محمد ﷺ کے ساتھ کم عمری میں ہوا تها......؟؟؟*

دشمنان اسلام خصوصاً " مغربی دنیا کے لوگ اس بات کو لے کر ہمارے آقا حضرت محمد ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتے نظر آتے ہیں. .. اور آپ ﷺ کے مبارک تقدس کو پامال کرنے کی ناپاک کوششیں کرتے ہیں، جن کا دیکھا دیکھی آج کل ہندوستان کے کچھ تنگ ذہن، اسلام مخالف لوگ بھی اس کو عنوان بنا کر مسلمانان ہند کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں.. جس کو سن کر مسلمان بہت زیادہ پریشان ہوجاتے ہیں اور شان اقدس میں ہونے والی گستاخی کو برداشت نہیں کرپاتے، مگر اس کے باوجود اس اعتراض پر اپنے آپ کو لاجواب محسوس کرتے نظر آتے ہیں.. اور بعض مسلمان خود حیران ہوکر اس پر سوال کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ام المومنین حضرت عائشہ سے اتنی کم عمری میں نکاح کیوں کیا تها....؟؟؟ 


آگے جو تحقیق اور حقائق آپ کے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اسے پڑھ کر آپ کے سارے اشکال دور ہوجائیں گے ان شاءالله ! اور آپ خود اپنے دوسرے مسلم اور غیر مسلم بھائیوں کی غلط فہمی کو دور کر سکتے ہیں، یہ تحریر بڑی محنت سے تیار کی گئی ہے اس کو کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھیں تاکہ پوری زندگی آپ کو اس عنوان کے متعلق تذبذب میں مبتلا نہ ہونا پڑے. 


#نوٹ: آپ اس قیمتی مضمون کا ہندی/ انگریزی و دیگر علاقائی زبانوں میں ترجمہ کر کے اپنے غیر مسلم دوستوں کو بھی شیئر کرسکتے ہیں..


بوقت ضرورت مقررین حضرات بھی اس تحقیق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو اس کے متعلق بتا سکتے ہیں، جو کہ اس وقت مسلمان ، خصوصا" دنیوی پڑھے لکھے طبقے کے ایمان و عقائد کی سلامتی کے لیے ضروری ہے.....


صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنه کا نکاح انکی چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی کے وقت ان کی عمر شریف نو برس کی تھی. { رواه البخاري (3894) ومسلم (1422) }..

 یہ ساری روایات صحیح ہیں ان کی صحت پر کلام نہیں کیا جاسکتا.

اس بات کو مغربی میڈیا نے کئی دفعہ mispresent کرکے عوام کے دلوں میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متعلق بدگمانی پیدا کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے. ..

 جس کی وجہ سے بعض لوگ حیرانی اور تعجب سے پوچھتے ہیں کیا محمد ﷺ نے ایک بچی سے نکاح کیا تھا...؟؟؟


آئیے دیکھتے ہیں کہ اس کی کیا حقیقت ہے.....

اس نکاح کے پیچھے کیا حکمت تھی...؟؟؟

 1400 سو سال پہلے کیا یہ عام سی بات تھی. ....؟؟؟؟

اس کا جواب دینے کے لیے ان روایات کی صحت پر کلام کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کو تاریخی پس منظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے...


*اہم نکتہ*:-  

وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں کی غذا اور ان کے کے استعمال کی چیزوں میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں اور اسی طرح انسانوں کے اندر بھی جسمانی تبدیلیاں ( Anatomical and Physiological Changes ) ہوئی ہیں...

1400 سال پہلے اتنی کم عمری میں شادی ہونا ایک عام سی بات تھی... اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یورپ، ایشیاء، افریقہ اور امریکہ میں 9 سال سے 14 سال کی لڑکیوں کی شادیاں کردی جاتی تھیں. ..


مثال کے طور پر سینٹ آگاسٹین Saint Augustine ~ 350 AD نے جس لڑکی سے شادی کی اس کی *عمر 10 سال* تھی. .


راجا ریچرڈ 2 ، KING RICHARD-II 1400 AD  

نے جس لڑکی سے شادی کی اس کی *عمر سات سال* کی تھی. .

ہینری 8 ، HENRY 8 نے ایک *6 سال* کی لڑکی سے شادی کی تھی. .

یہاں تک کہ عیسائیوں کی پڑھی جانے والی آج کی موجودہ بائبل میں ہے.

In the book of Numbers, chapter 31 and verse 17 


*" But Save for yourselves every GIRL who has never slept with a man "*

*" مگر ہر وہ لڑکی جو باکرہ ہے اس کو اپنے لیے محفوظ کرلو"*


عیسائیوں کی کیتھولک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم کا نکاح ان کی 12 سال کی عمر میں 99 برس کے جوسف سے ہوئی تھی.


1929 سے پہلے تک برطانیہ میں، چرچ آف انگلینڈ کے وزراء *12 سال* کی لڑکی سے شادی کرسکتے تهے.


1983 سے پہلے کیتھولک کینان کے قانون نے اپنے پادریوں کو ایسی لڑکیوں سے شادی کرلینے کی اجازت دے رکھی تھی کہ جن کی *عمر 12* کو پہنچ چکی ہو.

بہت سارے لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ امریکہ کے اسٹیٹ آف ڈیلیورا میں 1880 میں لڑکی کی شادی کی جو کم سے کم عمر تھی وہ *8 سال* تھی. اور کیلیفورنیا میں *10 سال* تھی. ..

یہاں تک کہ آج تک بھی امریکہ کے کچھ اسٹیٹس میں لڑکیوں کی شادی کی جو عمر ہے، وہ *میسیچوسس میں 12 سال*، اور *نیوہیمسفر میں 13 سال* اور *نیویارک میں 24 سال* کی عمر ہے.

یہاں تک تو عیسائیت اور مغربی ممالک میں لڑکی کی شادی کی مناسب عمر اور وہاں کے معروف شخصیات کے متعلق تھا، جس سے یہ صاف ثابت ہوتا ہے کہ تاریخی نکتہ نظر سے اس عمر کی لڑکی سے نکاح کرنا ایک عام سی بات تھی اور اس کو کوئی معیوب نہیں سمجھتا تھا.


*ہندو مذہب میں شادی کی عمر* : 

اب ہمارے ملک ہندوستان کے قوانین اور ہندو مذہب کی مقدس کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں کہ ان میں لڑکی کی شادی کی مناسب عمر کے بارے میں کیا لکھا ہے. ؟

ہندو مذہب کی کتاب منوسمرتی میں لکھا ہے،

*" لڑکی بالغ ہونے سے پہلے اس کی شادی کر دینی چاہیے"*

( گوتما 18-21 )


*"اس ڈر سے کے کہیں ایام حیض نہ شروع ہوجائیں، باپ کو چاہئیے کہ اپنی لڑکی کی شادی اسی وقت کردے جب کے وہ بے لباس گھوم رہی ہو، کیونکہ اگر وہ بلوغت کے بعد بھی گھر میں رہے تو اس کا گناہ باپ کے سر ہوگا "*  

واشستها ( 17:70 )

(manu ix, 88; http://www.payer.de/dharmashastra/dharmash083.htm)


- *Age of Marriage in India*

*ہندوستان میں شادی کی عمر* :

اس کے متعلق کیمبرج کے سنٹ جانس کالج کے Jack Goody نے اپنی کتاب

 *The Oriental, the Ancient and Primitive*

میں لکھا ہے کہ ہندوستانی گھروں میں لڑکیاں بہت جلدی ہی بیاہ دی جاتیں تھیں. .


سری نواس ان دنوں کے بارے لکھتے ہیں جب کہ انڈیا میں بلوغت سے قبل شادی کرنے کا رواج چلتا تھا..


(1984:11) : لڑکی کو اس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے اسکی شادی کردینی ہوتی تھی؛ ہندو لا کے مطابق اور ملک کے رواج کے موافق لڑکی کے باپ پر یہ ضروری تھا کہ وہ بالغ ہونے سے پہلے اس کی شادی کردے، گرچہ کہ رخصتی میں اکثر تاخیر ہوتی تھی، جو تقریبا" 3 سال ہوتی تھی.

(The Oriental, the Ancient, and the Primitive, p.208.)


- اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایسی کم عمری کی شادیوں کا انڈیا میں آج بھی رواج ہے. 


- *The Encyclopedia of Religion and Ethics*   

میں لکھا ہے کہ، جس کی بیٹی اس حالت میں بلوغت کو پہنچتی تھی کہ وہ غیر شادی شدہ ہو تو اس کے (ہندو) باپ کو گنہگار سمجھا جاتا تھا ، اگر ایسا ہوتا تو وہ لڑکی خود بخود "سدرا" (نچلی ذات ) کے درجہ میں چلی جاتی تھی. اور ایسی لڑکی سے شادی کرنا شوہر کے لیے باعث رسوائی ہوا کرتا تھا..


*منو* کی *سمرتی* نے مرد اور عورت کے لیے شادی کی جو عمریں طے کی ہیں وہ اس طرح کہ، لڑکا 30 سال کا اور لڑکی 12 سال کی یا لڑکا 24 سال کا اور لڑکی 8 سال کی...

مگر آگے چل کر *بھراسپتی* اور *مہابهارت* کی تعلیم کے مطابق ایسے موقعوں پر (ہندو) لڑکیوں کی جو شادی کی عمر بتائی گئی ہے، وہ 10 سال اور 7 سال ہے، جبکہ اس کے بعد کے *شلوکاس* میں شادی کی کم از کم عمر 4 سے 6 سال اور زیادہ سے زیادہ 8 سال بتائی گئی ہے. اور اس بات کے بے شمار شواہد ہیں کہ یہ باتیں صرف تحریر میں نہیں تھیں ( یعنی ان پر عمل کیا جاتا تھا) 

(encyclopedia of religion and ethics, p.450 ), 


- تو ہندو مذہب کے ماننے والوں کی اپنی کتابوں کے مطابق بھی اس عمر میں شادی کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے، جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں یا تو وہ جہالت کی بنیاد پر کرتے ہیں یا سیاسی مفاد کی خاطر... ان کو چاہیے کہ پہلے تاریخ کا اور اپنی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کریں....

*1400 سال قبل ملک عرب میں* 

 بھی اس عمر میں لڑکی کی شادی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا...

حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں جن لوگوں نے آپ کے پیغام کو جھٹلایا تھا، انہوں نے ہر طریقے سے آپ ﷺ کو بدنام کرنے اور آپ کو نیچا دکھانے کی کی کوشش کی. وہ ہر اس موقع کی تاک میں رہتے تھے کہ جس سے وہ آپ ﷺ کی شخصیت پر وار کر سکیں زبانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی.

آپ ﷺ پر جو زبانی حملے کرتے تھے ان میں کبھی آپﷺ کو جادوگر کہتے تھے، کبھی آپ کو کو جھوٹا کہتے تو کبھی آپ ﷺ کو مجنون کہتے تھے، نعوذ بالله من ذالك. مگر کبھی بھی ان لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنها سے آپ کے نکاح کو لے کر اعتراض کریں یا طعنہ دیں، ایسا کیوں...؟؟؟

کیوں کہ اس وقت ان کے سماج میں یہ عام سی بات تھی. اور ان کے نزدیک وہ کوئی ایسی عیب کی بات نہیں تھی کہ جس کو بنیاد بنا کر وہ آپ کو طعنہ دیتے....


*کیا آپ جانتے ہیں. ..؟*

کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ کے پہلے 54 سال تک صرف ایک ہی زوجہ محترمہ تھیں، وہ ام المومنین حضرت خديجة الكبرى رضى الله عنها تھیں.

کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ ایک بیوہ عورت تھیں جن سے حضرت محمد ﷺ نے نکاح کیا تها؟؟؟؟؟

 اور کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں. .؟؟؟

حضرت محمد ﷺ نے اپنی زندگی کے عین جوانی کے ایام صرف یہ ایک بیوی حضرت خدیجہ رضى الله عنها کے ساتھ گذارے ہیں جو آپ سے 15 سال بڑی تھیں...اور آپ ﷺ نے ان کی وفات تک بھی ان سے تعلق رکھا اور یہاں تک کے ان کی وفات کے بعد بھی ان کے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور تعلق کو برقرار رکھا....


*أم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنها سے آپ کا نکاح:*

اللہ کے حکم پر آپﷺ نے أم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنها سے نکاح فرمایا جب کہ ان کی عمر مبارک 6 سال تھی، مگر اسی وقت رخصتی نہیں کی گئی، جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنها کی عمر 9 سال کی ہوئی تب آپ کی رخصتی ہوئی. 

  

اب سوال یہ ہے کہ، جس وقت آپ کی رخصتی ہوئی ہے اس وقت کیا حضرت عائشہ ابھی نابالغ بچی تھیں....؟؟؟

نہیں بلکہ ملک عرب کے موسم اور وہاں کی ترتیب کے حساب سے وہ عمر بچیوں کی رخصتی کے لیے قابل قبول عمر تھی...


*تاریخ اور جدید سائنس* : اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ بلوغت کی عمر مختلف زمانے اور مختلف علاقوں کے حساب سے مختلف ہوتی رہی ہے... 

موجودہ سائنسی تحقیقات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ " لڑکیاں مکمل بلوغت کی عمر کو *9 سے 15 سال کی عمر* کے درمیان کسی بھی وقت پہنچ سکتی ہیں. "

( http://www.livescience.com/1824-truth-early-puberty.html )


*" The average temperature of the country is considered the chief factor with regard to Menstruation and Sexual Puberty"*

(Women : An Historical, Gynecological and Anthropological compendium, Volume I, Lord and Brandsby , 1998, p. 563)


ترجمہ : "کسی بهی علاقے کی بچیوں کے ایام حیض کے شروعات اور ازدواجی بلوغت کی عمر کو پہنچنے میں اس ملک کا اوسط" جو درجہ حرارت ہے، وہ اہم کردار ادا کرتا ہے."


ان سارے دلائل کی روشنی میں اگر اس واقعہ کو دیکھیں تو یہ اشکال کہ أمی عائشہ رخصتی کے وقت نابالغ بچی تھیں، بلکل ختم ہوجاتا ہے. اور ان سارے واقعات اور تاریخی پس منظر کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو کسی کو بهی اس نکاح پر اعتراض کرنے کا کوئی بھی موقع باقی نہیں رہتا....

ہاں! اگر کسی کے دل میں پہلے ہی سے مرض ہو تو اسے کوئی کچھ نہیں کرسکتا...

قوله تعالى:

﴿ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴾

سورة: (البقرة) الآية: (10)

"ان کے دلوں میں مرض تھا۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا."


*اس نکاح کی عظیم حکمت :*

تو اس نکاح کے پیچھے کیا حکمت تھی. ..؟؟؟

 ہمارا خالق، ہم کو سب کو پیدا کر نے والا سب چیزوں کو سب سے بہتر جاننے والا ہے.

حضرت عاشہ رضی اللہ تعالٰی عنها سے آپ ﷺ نے نکاح، اللہ تبارک وتعالى کے حکم کی تعمیل میں کیا تھا. 

( صحیح البخاری، جلد 5، کتاب 58، حدیث 235 )

سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنها نے، اللہ کے حبیب ﷺ کی 22000 سے زاید احادیث ہم تک پہنچائی ہیں. حضرت عائشہ رضی اللہ عنها غیر معمولی ذہین تھیں اور بہت بہترین قوت حافظہ کی مالک تھیں. اور چونکہ کم عمری میں ہی ان کی شادی اللہ کے نبی ﷺ سے ہوگئی تھی، تو انہیں آپ ﷺ سے بہت سارا علم حاصل کرنے کا موقع مل گیا. جس کی بدولت آگے چل کر انہوں نے ایک بہت بہترین استاد، ماہر اور فقیہ کا کردار ادا کیا. تو اس شادی کے پیچھے بڑی حکمتیں پوشیدہ تھیں.

حضرت محمد ﷺ دنیا کی آسائش اور اس کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے دنیا میں تشریف نہیں لائے بلکہ آپ نے ہمیشہ اپنے آپ کو دنیا کی زیب و زینت اور اس کی لذتوں سے دور رکھا، اور اپنی امت کو بھی اس کے دھوکے سے ڈرایا.

 جتنے بھی نکاح آپ ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں فرمائے وہ مردوں والے شوق کی شادیاں نہیں تھیں، بلکہ وہ حکم الٰہی اور حکمت خداوندی کی بنیاد پر تھیں..

ورنہ ایک ایسا حسین و جمیل، اجمل و اکمل، ابحا و انور، اعلی و انسب، توانا اور خوبصورت نوجوان، جس جیسا کسی کی آنکھ نے نہ دیکها


ہو، وہ اپنی عین بھر پور جوانی کے ایام اپنے سے 15 سال بڑی ایک ہی بیوی کے ساتھ کیسے گزار سکتا تها ...؟؟

    منقول

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اغیار کی نظر میں

سہل بن عبداللہ تستری علیہ الرحمہ

قوم کے حالات