سیدنا معروف کرخی علیہ الرحمہ


 

*٢ محرم الحرام وصال حضرت سیدنا معروف کرخی رضی اللہ تعالی عنہ*


🌹 *حضرت سیدنا معروف کرخی رضی اللہ تعالی عنہ کی حیات طیبہ کے چند گوشے*🌹


از۔ *افقر الوریٰ الیٰ سیدالوریٰ ﷺ*

*محمد شہاب الدین علیمیؔ*

٢ محرم الحرام ٢٤٤١؁ھ 

22 اگست 2020؏


                                ﷽

            عرب کا ریگستان ہے ، گرمی اپنے جوبن پر ہے ، ریت کے ذرّات ایسے دہک رہے ہیں جیسے آگ کے انگارے ۔ ایک غمزَدہ اور ستم رسیدہ شخص کو ایسی شدت کی گرمی میں آگ کی طرح دیکھتے ہوئے ذروں پر برہنہ لٹا دیا گیا ہے اور ایک گرم پتھر اس کے سینے پر رکھ دیا گیا ہے ۔ تکلیف کی شدت سے آنکھیں ابل رہی ہیں ، گرمی کی تپش کی وجہ سے حبشی باشندے کی رنگت مزید گہری ہو گئی ہے ، کمر کی کھال ادھڑ کر خون رسنے لگا ہے ، دُرّے مار مار کر آقا بھی نیم بے ہوش ہونے کو ہے ۔ یہ تمام تکالیف اس لیے دی جا رہی ہیں کہ وہ شخص کفر کی ظلمت سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آ گیا ہے ۔ اسے اسلام سے منحرف کرنے کی بےسود سعی کی جا رہی ہے ، مگر وہ دیوانہ ایسا ہے کہ مصلحت کے تمام سبق فراموش کرکے ایک ہی کلمہ دہراتا جا رہا ہے " *احد احد*" ۔ ظالموں کا ظلم اس شخص کے پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی لغزش نہیں دے پا رہا ہے ۔ ظلم سہتے سہتے ایک عرصہ ہوگیا ہے مگر احد احد کا نعرہ بدستور زبان پر جاری ہے ۔ آخر کار اللّٰہ تعالی کے ایک نیک بندے اور صاحب ثروت انسان ، امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے پہلے مرد مومن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس شخص کو ظالم کے ظلم سے آزاد کروا دیا۔ اتنا ظلم سہنے کے باوجود اسلام کو نہ چھوڑنے والے اس دیوانے کو دنیا آج بلال حبشی کے نام سے جانتی ہے۔

                 اس واقعے کو تقریبا ڈیڑھ صدی ہو چکے ہیں ، اور دوسری صدی کا دور چل رہا ہے۔ اس صدی میں دین اسلام دور دور تک پہنچ چکا ہے ، اطراف عرب اللہ تعالی کے صاحب اسرار بندوں کی جبینِ نیاز سے شاد و آباد ہے ۔ ایسے میں عراق کے شہر بغداد میں *کرخ* نامی علاقہ کے ایک عیسائی خاندان میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ پورے گھر میں خوب خوشیاں منائی گئیں۔ عیسائی مذہب کے مطابق اسے بتیسمہ ( ایک عیسائی رسم ) دیا گیا ، مگر اس بچے کی روح سعید بہت مضطرب تھی۔ لڑکا تھوڑا بڑا ہوا تو والدین کو اس کی تعلیم و تربیت کی فکر لاحق ہوئی ، اور ایک عیسائی عالم کو اس کام کے لیے مقرر کر دیا گیا۔ اس لڑکے کے ساتھ اس کا ایک بھائی بھی اس کے ساتھ زیر تعلیم ہے ، جو بچپن کے حالات کو یوں بیان کرتا ہے۔

              عیسائی معلم ہمیں عیسائیت کا درس دیتا مگر میرے بھائی کو اللہ تعالی نے عقیدئہ توحید کے لیے پہلے ہی چن لیا تھا۔ عیسائی معلم ہمیں باپ بیٹے کے عقیدے کی تعلیم دیتا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے ہیں اور کہتا کہ کہو ثَالِثُ ثَلٰثَةٌ ، مگر بھائی احد احد کہتے ( ڈیڑھ صدی کے بعد سنت بلالی کو زندہ کر رہے تھے سبحان اللہ العظیم ) جس پر عیسائی عالم انہیں بہت مارتا۔ ایک دن اس نے زیادہ ہی مار دیا جس کی وجہ سے وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گئے بہت ڈھونڈا گیا مگر وہ نہ ملے۔ والدہ کو بہت تکلیف ہوئی بہت روئیں ، اور انہوں نے کہا کہ اگر ہمارا بیٹا ہمیں مل گیا تو جس دین پر وہ ہو گا ہم اس دین کو قبول کر لیں گے ۔

              ادھر بھائی حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالی عنہ ( حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ساتویں پشت میں آتے ہیں ) کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہو گئے اور ان سے ظاہری و باطنی فیض حاصل کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد گھر تشریف لائے تو ماں نے پوچھا :- کس دین پر ہو؟ بھائی نے جواب دیا :- دین اسلام پر۔ چنانچہ اسی وقت پورا گھر مشرف بہ اسلام ہو گیا۔

           جانتے ہیں وہ سعادت مند بچہ کون تھا؟ وہ تھے امام الاولیاء حضرت سیدنا معروف کرخی رضی اللہ تبارک و تعالی عنہ۔ آپ کا اصلی نام اسدالدین ہے ، اور آپ معروف کرخی سے مشہور ہیں۔ آپ کی کنیت ابو محفوظ ہے۔ والد کا نام پہلے فیروز تھا مگر اسلام لانے کے بعد علی نام رکھا گیا۔


              آپ اللہ تعالی کے بہت بڑے ولی تھے۔ آپ پر کثرت نوافل سے زیادہ ذکر کا غلبہ رہتا تھا۔ آپ ذکر و اذکار میں زیادہ مشغور رہتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حجام سے خط بنوا رہے تھے اور اسی درمیان ذکر میں بھی مشغول تھے۔ حجام نے کہا کہ رک جائیں ورنہ خط نہیں بن پائے گا ، تو آپ نے جواب دیا کہ تم اپنا کام کر رہے ہو اور میں اپنا کام نہ کرو؟ اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت سیدنا معروف کرخی کس قدر ذکر کرتے تھے۔


            اولیائے کرام کی زندگی رسول پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی زندگی کا آئینہ دار ہوا کرتی ہیں۔ طائف میں حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو کتنی اذیتیں دی گئیں۔ آپ کے ساتھ کتنا غلط کیا گیا۔ مگر آپ نے ان لوگوں کے لئے بددعا نہیں کی بلکہ ان کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی ، اور کہا کہ اے اللہ پاک میری قوم مجھے نہیں پہچانتی ہے انہیں ہدایت عطا فرما۔ یہ سیدنا معروف کرخی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی سنت رسول ﷺ کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔ آپ بھی کسی کو بددعا نہیں دیتے تھے بلکہ زبان سے دعا کے کلمات ہی نکالا کرتے تھے۔ جس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔

              نوجوانوں کی ایک جماعت لہو لعب اور رقص و سرود میں مشغول تھی۔ لوگوں نے آپ سے کہا کہ حضرت ان لوگوں کے لیے بد دعا فرما دیں۔ حضرت نے بد دعا نہیں فرمائی بلکہ اللہ پاک سے دعا کی کہ اللہ پاک جس طرح تو نے ان نوجوانوں کو دنیا میں خوش رکھا ہے ایسے ہی آخرت میں بھی انہیں مسرت عطا فرما۔ لوگ حیران ہوگئے کہ ہم نے تو بد دعا کے لئے کہا تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ تھوڑا توقّف کرو پھر دیکھو۔ تھوڑی دیر کے بعد ان نوجوانوں نے لہو و لعب کا سارا ساز و سامان توڑ دیا اور حضرت کے پاس آکر ان کے دست مبارک پر توبہ کی۔

         آپ کی شان بہت بلند و بالا ہے۔ آپ سردار اولیاء حضور غوث الثقلین رضی اللہ تعالی عنہ کے شیخوں کی شیخ ہے۔ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالی عنہ کو کون نہیں جانتا۔ ان کے شیخ حضرت سری سقطی سے کون واقف نہیں۔ حضرت سیدنا ابو محفوظ معروف کرخی حضرت سری سقطی کے شیخ ہیں۔ حضرت سری سقطی فرماتے ہیں جو نور عرفان مجھے حاصل ہوا ہے وہ حضرت معروف کرخی کے صدقے میں مجھے حاصل ہوا ہے۔ حضرت سری سقطی فرماتے ہیں کہ حضرت نے مجھ سے فرمایا:- اگر تمہیں کسی چیز کی طلب ہو تو اللہ پاک سے یوں دعا کرنا:- اے اللہ پاک بحقِّ معروف کرخی فلاں شے مجھے عطا کر دے تو وہ چیز تمہیں مل جائے گی۔


              آپ کا وصال 2 محرم الحرام ٠٠٢؁ ھجری میں ہوا۔ آپ کا مزار پرانوار بغداد معلّٰی میں ہے۔ جنازے میں تقریبا تین لاکھ لوگ شامل تھے۔ اکابر علماء کرام نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ سیدنا معروف کرخی رضی اللہ تعالی عنہ کے مزار پاک پر دعائیں فورا قبول ہو جاتی ہیں۔ کسی نے وصال کے بعد اپنے بھائی کو خواب میں دیکھا تو پوچھا کی تیرا کیا حال ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ مجھے سیدنا معروف کرخی رضی اللہ تعالی عنہ کے قریب دفن کیا گیا جس کی وجہ سے میری مغفرت فرما دی گئی ، اور ان کی قبر مبارک کے دائیں بائیں آگے اور پیچھے30-30 ہزار عذاب میں مبتلا لوگوں کو بخش دیا گیا۔ یہ ہوتے ہیں اللہ والے جو دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔


بہرِ معروف و سری معروف دے بے خودسری

جندِ حق میں گن جنیدِ باصفا کے واسطے


           اللہ پاک ان کے مرقد پاک پر رحمت و نور کی بارش فرماۓ اور ان کے صدقے ہماری دنیا و آخرت کو سنوار دے۔


 آمین یا رب العالمین بجاہ سید المحبوبینﷺ۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ اغیار کی نظر میں

سہل بن عبداللہ تستری علیہ الرحمہ

قوم کے حالات